پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ اگلے جمعے (23 دسمبر) کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔

ٌخیبرپختونخوا اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کے ہمراہ ویڈیو لنک کے ذریعے لبرٹی چوک اور دیگر شہروں میں جمع ہونے والے پی ٹی آئی کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے عمران خن کا کہنا تھا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد ہم الیکشن کی تیاری کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد غالباً ہماری 123 قومی اسمبلی کی نشستیں ہیں، ہم وہاں جا کر اسپیکر کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں گے کہ ہمارے استعفے قبول کرو۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشنر نے نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر 8 سیٹیں چنیں، جو ہماری سب سے کمزور نشستیں تھیں جہاں پی ڈی ایم کا ووٹ دوگنا تھا، ہماری باشعور قوم ہے، پتا ہوتے ہوئے کہ میں اسمبل نہیں جاؤں گا، اس کے باوجود میری قوم نے مجھے تمام 8 نشستوں پر کامیابی دلائی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی دو اسمبلیوں کو اپنے ملک کے لیے قربان کرتے ہیں اور اس لیے کرتے ہیں کہ جب اسمبلیوں سے نکلیں گے تو 66 فیصد پاکستان میں انتخابات ہوں گے، عقل کہتی ہے کہ عام انتخابات کروا دیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے وکیلوں سے پوچھ لیا ہے، یہ الیکشن کمیشن کے ذریعے کوشش کریں گے کہ کسی طرح انتخابات میں تاخیر ہو جائے لیکن آئین اس کی بالکل اجازت نہیں دیتا کہ انتخابات 90 دن سے آگے ہوں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے اور اپنی قوم کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مایوسی گناہ ہے، آپ مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائیں، یا آپ کسی اور ملک چلے جائیں، یہ میری نظر میں انسان اپنی ڈیوٹی سے بھاگتا ہے، آپ سب کی اصل ڈیوٹی یہ ہے کہ آپ سب کھڑے ہوں اور ہم ان چوروں اور کرپٹ نظام کا مقابلہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے الیکشن کے ذریعے ان کو سبق سکھائیں، میں نہیں چاہتا یہاں سری لنکا جیسی صورت حال ہو کہ لوگ سڑکوں پر آ جائیں اور توڑ پھوڑ ہو، میں انہیں انتخابات کے ذریعے شکست چاہتا ہوں۔

عمران خان نے کہا کہ ان کو ایسی شکست دیں کہ ہمیشہ کے لیے ان چوروں کا نام و نشان یہاں سے چلا جائے اور وہ تب ہو گا کہ جب آپ سب اس کو اپنی ذمہ داری لے کر باہر نکلیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ساڑھے تین سال حکومت میں رہا، اس کے باوجود کہ دیوالیہ حکومت ملی، اس کے باوجود کہ ہمارے پاس تجربہ ہی نہیں تھا، ہم پہلی دفعہ حکومت میں آئے تھے ایک کے بعد دوسرا بحران تھا، صدی میں ایک دفعہ آنے والا کورونا جیسا بحران بھی آیا، اس کے باوجود ہماری معاشی کارکردگی سب سے بہترین تھی۔

’بھاری اکثریت ملی تو ملک میں اصلاحات لاسکتے ہیں‘

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اب ملک اس وقت اٹھے گا جب بڑے اور مشکل فیصلے ہوں گے، مشکل فیصلوں کا مطلب ملکی اداروں کو ری اسٹرکچر کریں، اس ملک میں انصاف قائم کریں، اگر اللہ بھاری اکثریت دیتا ہے تو تب آپ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں، اس ملک میں اصلاحات کرسکتے ہیں، ادارے ٹھیک کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اتنی بڑی حکومت بنا دی، جو ہمیں آگے نکلنے نہیں دیتی، ہر جگہ رکاوٹیں کھڑی ہو گئیں، ہم نے کافی تبدیل بھی کیا، ہمیں کس طرح برآمدات بڑھانا ہے، اس کا منصوبہ بنایا ہوا ہے، اسی طرح اسمال اینڈ میڈیم انڈسٹری کو کیسے کھڑا کرنا ہے، جو اصل روزگار دیتی ہے اور دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ زراعت کے حوالے سے چین سے بات کر چکے تھے کہ نئی ٹیکنالوجی لے کر آئیں، بدقسمتی سے کورونا کی وجہ سے 2 سال چین بند ہوگیا، اگر ہم اپنی زرعی پیداوار دگنی کر لیں تو آپ یہ سمجھیں کہ پاکستان میں یہ انقلاب آ جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس ملک کو اٹھا سکتے ہیں لیکن وہ حکومت اٹھائے گی، جس کے پاس مینڈیٹ ہو، جس کے پاس عوام کی طاقت ہو، اللہ کے بعد اس ملک میں جو وراث عوام ہیں، عوام نے قوم بن کر اس مشکل وقت سے نکلنا ہے اور تب نکلیں گے، جب اس ملک میں صاف اور شفاف انتخابات ہوں اور اس کے لیے اب ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ میں چاہتا تھا کہ آج قوم کے سامنے یہ رکھوں کہ ہم اس اسٹیج پر پہنچے کیسے، ہماری اپنی حکومتیں ہیں لیکن ہم کیوں اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں اپنی حکومتیں بھی قربان کرنا پڑیں، اس ملک کے اندر جب تک صاف اور شفاف انتخابات نہیں ہوں گے، ہم سب کو خوف ہے کہ ملک ڈوب رہا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ آج ہماری انڈسٹری بند ہو رہی ہے، ہم نے مراعات دے کر انڈسٹری بڑھائی، ہمارے ٹیکسز بڑھ رہے تھے، ہم نے ریکارڈ برآمدات کیں، میں نے اپنی کسانوں کی مدد کی۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آج ملک میں مایوسی کا یہ عالم ہے کہ سات مہینے میں 7 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے، اس میں انجینئر، ڈاکٹر سمیت دیگر ہنرمند لوگ تھے۔

انہوں نے کہا کہ میرا سوال یہ ہے کہ جب یہ ملک ترقی کر رہا تھا، ہم نے پہلے سال پاکستان کو سنبھالا اور پھر پاکستان کی شرح نمو میں اضافہ کیا، حالانکہ کورونا کی وبا بھی تھی، جس کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہوئی تھی۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ میرا آج سوال یہ ہے کہ اس رجیم چینج کا ذمہ دار کون تھا، جب معیشت بڑھ رہی تھی، کیا وجہ تھی کہ حکومت کو گرا کر چوروں کی حکومت کو اوپر بٹھایا گیا، کون جواب دے گا کہ وہ معیشت جو اوپر جا رہی تھی، اس کی جگہ آج وہ حالات ہیں کہ دنیا کہہ رہی ہے کہ پاکستان کو اگر قرضے دیں گے، تو قرضے واپس کرنے کا ڈیفالٹ ریٹ 100 فیصد ہے، ہمارے دور میں یہ 5 فیصد تھا۔

’پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری آدھی رہ گئی‘

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری آدھی رہ گئی ہے، ہم نے بیرون ملک پاکستانیوں کی مدد کی تھی، پاکستان کی تاریخ میں بیرون ممالک پاکستانی سب سے زیادہ ڈالرز بھیج رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بیروزگاری بڑھ رہی ہے، ملک کا یہ حال ہے کہ نہ باہر سے کسی کو اس حکومت پر اعتماد ہے اور پاکستان کے 88 فیصد بزنس مین کہتے ہیں کہ ہمیں اس حکومت پر اعتماد نہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے معیشت سنبھالا ہوتا تو کہتے چلیں ٹھیک ہے، اپنا ٹائم پورا کر لیں لیکن ملک تو نیچے جارہا ہے، مجھے خوف ہے کہ یہ ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے۔

’یہ اکتوبر میں بھی انتخابات نہیں کروائیں گے‘

عمران خان نے کہا کہ حکومت کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے، یہ صرف ایک چیز چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن میں تاخیر کریں، اس لیے نہیں کہ انہوں نے معیشت کو اٹھا دینا ہے، اس لیے تاخیر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ انتخابات سے خوفزدہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں ڈر ہے کہ جب بھی الیکشنز ہوں گے، یہ ہار جائیں گے ، اپنے آپ کو بچانے کے لیے یہ ملک کو تباہ کر رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ اکتوبر میں بھی انتخابات نہیں کروائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشنر ان کے ساتھ ملا ہوا ہے، وہ ان کو طریقے سے بتائے گا کہ الیکشن میں کیسے تاخیر کی جاسکتی ہے۔

’ہماری حکومت گرانے کے ذمہ دار صرف جنرل (ر) قمر باجوہ ہیں‘

عمران خان نے کہا ہے کہ کس نے چلتی ہوئی حکومت کو سازش کرکے بیرونی سازش کا حصہ بن کے گرایا، اس کا ذمہ دار کون ہے، اس کا ایک آدمی ذمہ دار ہے، اس کا نام ہے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اس کے خلاف بات اس لیے نہیں کر رہا تھا کیونکہ یہ آرمی چیف تھے، آرمی چیف کے خلاف اس لیے بات نہیں کرسکتے کیونکہ فوج کا برا نام نہ ہوجائے، ہم چاہتے ہیں کہ فوج مضبوط ہو تاکہ ہم آزاد ملک رہ سکیں، اس لیے ہم چپ کرکے بیٹھے رہے اور یہ سارے تماشے دیکھتے رہے کہ کیسے سازشیں ہوئیں، کیسے لوگوں کو بتایا گیا۔

عمران خان نے کہا کہ یہ جو ساری سازش ہوئی تھی، کسی اور کو نہ کہیں، ایک آدمی فیصلہ کرتا ہے، وہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ تھے، انہوں نے ہمیں ہٹانے کا فیصلہ کیا، اس کے پیچھے کیا وجہ تھی کہ انہوں نے حکومت گرائی۔

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح مصطفیٰ کھوکھر نے بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم اور شاہ زین بگٹی کا سب کو پتا تھا کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ سے جدھر جانے کا حکم ملے گا، انہیں وہاں جانا ہے، اس کو ادھر بھیج دیا اور حکومت گر گئی۔

عمران خان نے کہا کہ جب حکومت گر گئی، جب ان کو اس چیز کا علم ہوا کہ عوام ہمارے ساتھ آ کر کھڑے ہو گئے ہیں، 10 اپریل کو عوام سڑکوں پر نکل آئے اور لوگوں نے ان چوروں کو مسترد کر دیا بلکہ ہماری مقبولیت بڑھنا شروع ہوگئی۔

ان کا کہنا تھا کہ بعد میں جب ضمنی انتخابات کروائے گئے تو موجودہ حکومت کو جتانے کے لیے ریاستی مشینری کے ساتھ پوری کوشش کی گئی، اس کے باوجود یہ ہار گئے، قوم نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

عمران خان نے کہا کہ افسوس کی بات ہے، جنرل (ر) باجوہ آپ نے غلطی کر دی ہے، آپ عقل کل تو نہیں ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگ کدھر کھڑے ہیں، بجائے اس کے کہ چیزیں ٹھیک کریں، ہمارے اوپر ظلم شروع ہو گیا۔

’قوم کو پتا ہے، این آر او 2 جنرل ریٹائرڈ باجوہ نے دیا‘

ان کا کہنا تھا کہ ساری قوم کو پتا ہے کہ این آر او 2 جنرل ریٹائرڈ باجوہ نے دیا ہے، میں جب حکومت میں تھا، انہیں کہتا رہا کہ یہ 30 سال سے چوری کر رہے ہیں، ان پر کرپشن کے کیسز ہیں، نیب کو آپ کنٹرول کرتے ہیں، کیوں ان کے کیسز آگے نہیں بڑھاتے۔

عمران خان نے دعویٰ کیا کہ سابق آرمی چیف کہتے رہے کہ آپ ملک کی اقتصادیات ٹھیک کریں، احتساب کو بھول جائیں، کبھی کوئی مہذب معاشرہ یہ اجازت دیتا ہے کہ بڑے بڑے لوگ جو اربوں کی چوری کریں، آپ کہیں ان کو این آر او دے دیں اور چھوٹے چوروں کو پکڑنا شروع کریں اور سوچیں کہ آپ کا ملک ترقی کرسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے اوپر 16 ارب روپے کا ایف آئی اے کا اوپن اینڈ شٹ کیس تھا، اس میں کوئی شک نہیں تھا، اسے بچایا گیا، ان کا صاحبزادہ سلیمان شہباز باہر بھاگ گیا تھا، اب واپس آیا ہے، جیسے ہی ایف آئی اے نے سوال پوچھا کہ نوکروں کے پاس اربوں روپے کدھر سے آئے ہیں تو وہ ملک سے بھاگ گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اتحاد نے قانون بنایا کہ جس میں لوگ بچ جائیں، انہوں نے نیب قانون کی دفعہ 4 میں ترمیم کی، اس میں راجا پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی بچ جاتے ہیں، پھر سیکشن 5 (ای) میں ترمیم کی، اس میں مریم نواز ساری چوری سے پاک ہو کر نکل آئیں، اس کے بعد سیکشن 9 میں ترمیم کی جس کے اندر شہباز شریف بچ جاتے ہیں۔

’کیا ویڈیوز یا فائلیں بنانا ایجنسیوں کا کام ہے‘

عمران خان نے کہا کہ مجھے ایک جگہ جنرل (ر) باجوہ نے بتایا کہ آپ کے لوگوں کے اوپر کرپشن کے حوالے سے ہمارے پاس فائلیں ہیں، ان کی ویڈیوز بنی ہوئی ہیں، میں نے ان سے بھی کہا کہ کیا ہماری ایجنسیوں کا کام ہے کہ گندی ویڈیوز بنائیں یا اس کے خلاف فائلیں بنائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں وزیراعظم تھا، میرے گھر کا فون ٹیپ کیا ہوا تھا، اس کے بعد وہ لیک کرتے ہیں، کوئی نہیں پوچھ رہا کہ یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، میں اپنے پرنسپل سیکریٹری سے بات کر رہا ہوں، انہوں نے وہ ٹیپ چلا دی، ہم کوئی ملک کے دشمن ہیں؟ کیا میرے پیسے باہر پڑے ہوئے ہیں، کیا میں ملک سے کوئی غداری کر رہا ہوں؟

عمران خان نے کہا کہ اس لیول پر نیچے گرنا تھا کہ اعظم سواتی کے گھر ان کی ویڈیو بھیج دی اور ڈرایا گیا کہ تمہاری فیملی محفوظ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ (جنرل ریٹائرڈ) نے این آر او (2) نہیں دیا تو جا کر عوام کو بتائیں، ہم بتائیں گے کہ آپ نے لوگوں کو کیسے بچایا، آپ نے احتساب ہونے ہی نہیں دیا۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سروے کے مطابق 70 فیصد پاکستانی کہہ رہے ہیں کہ انتخابات کرواؤ، ہم نے آئین میں رہتے ہوئے حکومت پر پریشر ڈالنے کی کوشش کی کہ عوام ادھر کھڑی ہوئی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجھے سازش کا پتا تھا، مجھے ہٹنے سے ایک سال قبل ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ شہباز شریف کو لانے کے لیے تیار کیا جارہا ہے، مجھے سارا پتا تھا کہ یہ ہو رہا ہے، اور افسوس کی بات ہے کہ میں جب بھی جنرل (ر) باوجوہ سے پوچھتا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ ہم کسی صورت ایسا نہیں کرسکتے، ہم تسلسل چاہتے ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مجھے کہا جارہا ہےکہ اگر آپ نے حکومت چھوڑ دی تو آپ کے اوپر بڑا ظلم ہوگا، آپ کی پروٹیکشن چلی جائے گی، جب میں مارچ کے اوپر جا رہا تھا تو میں نے سب کو کہا تھا کہ اس میں میرے اوپر واردات ہوگی، میری جان کو خطرہ ہے، میں نے پہلے بتایا تھا کہ یہ دینی انتہا پسند کے نام پر مجھے قتل کریں گے۔

’بشریٰ بیگم خطرے کے باوجود مجھے کہتی تھیں کہ جاؤ‘

ان کا کہنا تھا کہ ہر روز جب میں مارچ پر جاتا تھا اور بشریٰ بیگم کو خدا حافظ کہتا تھا، میں ان کو سلام کرتا ہوں کہ پتا ہوتے ہوئے کہ میری جان خطرے میں ہے، اس کے باوجود وہ مجھے کہتی تھیں کہ جاؤ یہ جہاد ہے، یہ کام آپ اللہ کے لیے کر رہے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ جیسے ہی میں چلنے کے قابل ہوں گا، میں پھر باہر نکلوں گا کیونکہ اپنی قوم کو حقیقی طور پر آزاد کرنا یہ اللہ کا حکم ہے۔

خیال رہے کہ 14 دسمبر کو سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ مشاورت مکمل کر لی ہے، ان شا اللہ 17 دسمبر کو لبرٹی چوک پر اپنے خطاب میں تاریخ دوں گا کہ ہم کب پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کریں گے۔

ویڈیو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اس کے علاوہ غالباً ہمارے 125 ارکین قومی اسمبلی ہیں، جن کے استعفے انہوں نے ابھی تک قبول نہیں کیے، ہم قومی اسمبلی میں اسپیکر کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں گے کہ ہمارے استعفے قبول کرو تاکہ ہم قومی اسمبلی سے بھی نکلیں، پھر تقریباً 70 فیصد پاکستان میں انتخابات ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں