وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہم نے بلیک میل ہو کر قطعی طور پر الیکشن نہیں کروانا، الیکشن پانچ سال کا ہے، ان کی مدت ایک سال قبل ختم ہوگئی تھی، باقی مدت پوری ہوگی اور انتخابات وقت پر ہوں گے۔

لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ جس وقت انہیں تحریک عدم اعتماد سے ہٹایا تھا میرا خیال تھا کہ انتخابات کروالینے چاہیے تھے، ہمیں گزشتہ 8 ماہ میں سیاسی نقصان ہوا ہے، قانون اور آئین ہمیں حق دیتا ہے کہ آئین کے مطابق مقررہ تاریخوں پر انتخابات کروائیں تاکہ ہم اس ملک و قوم کی خدمت کرکے سیاسی ساکھ کو بحال کر سکیں۔

’پاکستان کے جو حالات ہیں، اس کے سب ذمہ دار ہیں‘

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بالکل صحیح بات ہے کہ پاکستان کے جو آج حالات ہیں ان میں چار، پانچ ہماری حکمراں اشرافیہ کے جز ہیں جس میں سیاست دان، بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، میڈیا، بڑے بزنس بھی شامل ہے، پاکستان کے آج جو حالات ہیں یہ سب اس کے ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کون زیادہ ذمہ دار ہے اور کون کم ذمہ دار ہے، یہ ایک اکیڈمک بحث ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری اشرافیہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے جو پچھلے 75 سال سے حکمرانی کر رہے ہیں، یہ زیادہ لوگ نہیں ہیں، یہ ہزاروں میں ہیں، لاکھوں میں بھی نہیں ہیں لیکن ان کی کوتاہیوں، لرزشوں، ذاتی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی وجہ سے باقی عوام کا بھی اقدار اور اخلاق آہستہ آہستہ پستی کی طرف چلا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 75 برسوں میں اقدار اتنی زیادہ کمپرومائزڈ ہوگئی ہیں کہ اب پتا نہیں لگتا کہ کون سی چیز جائز ہے یا کونسی چیز ناجائز ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ اب دیکھیں کہ زکوٰۃ کے لیے پیسے لیے اور سیاسی جماعت کے فنڈ میں ڈال دیے گئے، الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق ووٹن کرکٹ کلب کے پیسے زکوٰۃ کے لیے تھے، اس کو سیاست میں ڈال دیا گیا، اس کے بعد اس میں سے 70 لاکھ روپے خاتون کو دے دیے گئے، آپ کی سیاست کی اس ایک واقعے سے تعریف ہو جاتی ہے۔

انہوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر الزام لگایا کہ یہ شخص کوئی کام اپنے مال پر نہیں کرتا، سارا کام لوگوں کے مال پر کرتا ہے، یہ سیانا نہیں چول ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پی ٹی آئی کے 130 سے 135 کے قریب مستعفی اراکین اسمبلی ہیں، وہ حکومت سے 50 کروڑ روپے لے رہے ہیں، سرکاری رہائش، سرکاری سہولیات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، ان کا لیڈر بھی جیب کترا اور اس کے فالورز بھی جیب کترے ہیں۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حامد میر نے کہا کہ ان اراکین کو استعفے دینے دو، اس کے بعد انہیں الیکشن بھی لڑنے دو، اس کے بعد پھر استعفے دینے دو، 8 مہینے اسی طرح کرنے دو، میں حامد میر کا پیغام اپنی لیڈرشپ کو اس تقریب کی وساطت سے پہنچاؤں گا کہ عقل کی بات بعض اوقات اچھے دوستوں سے مل جاتی ہے، لہٰذا ان کے استعفے منظور کرو، ان کو ٹرک کے بتی کے پیچھے لگائے رکھو۔

’کوشش کی گئی اس ماڈل کو لانچ نہ کیا جائے، ہمارے ساتھ مک مکا ہوجائے‘

ان کا کہنا تھا کہ حامد میر نے جو بات کی ہے کہ کیوں 2018 میں مجبوری بنی کہ اس (عمران خان) کو لایا جائے، ایک ماڈل تھا جو لیبارٹی میں پڑا ہوا تھا، آخری وقت تک کوشش کی گئی کہ اس کو لانچ نہ کیا جائے، اس کے بجائے ہم لوگوں کے ساتھ کسی قسم کا مک مکا ہو جائے لیکن جس طرح شہباز شریف اپنے اصولوں پر کھڑے رہے، اپنے بھائی اور جماعت کے ساتھ انہوں نے وفاداری نبھائی، اللہ تعالیٰ سرخرو کرتا ہے، ہوسکتا ہے کہ ہم وہاں پر سمجھوتہ کر لیتے تو آج جس عزت اور آبرو کے ساتھ آپ کے سامنے کھڑے ہیں، ایسے نہ کھڑے ہو پاتے۔

انہوں نے کہا کہ جس ہاتھ نے اس (عمران خان) کو کھلایا ہے، اس نے اس ہاتھ کو کاٹا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ آپ دیکھیں کہ کس کس بات پر اس نے کہا ہے، جنرل (ر) قمر باجوہ کو توسیع دے کر غلطی کی، روس جانا غلطی تھی، فلاں بات بھی غلط کی، اس (عمران خان) شخص کی وفاداری دولت اور اقتدار کی ہوس کے ساتھ ہے، اس کے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں ہے۔

انہوں نے عمران خان پر مزید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ میں نے اسمبلی میں شاہ محمود قریشی کو کہا تھا کہ اس (عمران خان) کی جیبیں چیک کریں خالی ہوں گی، اگر پیسے نکل آئے میں استعفیٰ دے دوں گا۔

75 سال کا گند عمران خان میں آکر جمع ہوگیا ہے’

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اپنا وزیراعلیٰ ہے، اس کو کہے کہ خالی کرو، گھر جاؤ، پاکستان کی سیاست کے ساتھ جو کھلواڑ ہو رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پچھتر سال کا جو گند اکٹھا ہوا تھا، وہ ایک شخص میں آکر جمع ہوگیا ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ ہماری کوتاہیاں، ہم سے پہلی نسل کی کوتاہیاں، اسٹیبلشمنٹ کی کوتاہیاں اور عدلیہ کے فیصلے، بیوروکریسی کی ہر آنے والے کے ساتھ وفاداری یہ سارا کچھ اکٹھا ہو کر ایک مائیکرو کازم بن گیا ہے، یہ عمران خان ہمارے ملک کے آج کے حالات کو ڈیفائن کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے گزشتہ 75 برسوں میں پاکستانی سیاست میں جن جن کا حصہ رہا ہے ان سب کو بیٹھنا پڑے گا، شخصیات کو نہیں بلکہ اداروں کو بیٹھنا پڑے گا، جس میں سیاست کا ادارہ پارلیمنٹ اول نمبر پر ہے، عدلیہ سمیت جو بھی ادارے ذمہ دار ہیں انہیں بیٹھنا پڑے گا، نواز شریف کے ساتھ عدلیہ نے کیا کیا، بیٹی جیل میں ملنے گئی تھی، بیٹی کو باپ کے سامنے گرفتار کرلیا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ یہ کہتا تھا کہ میرے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا، نیب کے فیصلے جنرل (ر) قمر باجوہ کراتے تھے، فیصلے یہی (عمران خان) ہی کر رہا تھا، اب حوصلہ نہیں پڑتا، ایک بندہ گرفتار ہوتا ہے اور پھر رولا پڑ جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بلیک میل ہو کر قطعی طور پر الیکشن نہیں کروانا، الیکشن پانچ سال کا ہے، ان کی مدت ایک سال قبل ختم ہوگئی تھی، باقی مدت پوری ہوگی، انتخابات وقت پر ہوں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں