توشہ خانہ کیس: طبی بنیادوں پر عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور

اپ ڈیٹ 09 جنوری 2023
بیرسٹر گوہر نے عمران خان کی طبی بنیاد پر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دی — فائل فوٹو: اے ایف پی
بیرسٹر گوہر نے عمران خان کی طبی بنیاد پر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دی — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں طبی بنیادوں پر سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے اگلی سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ظفر اقبال نے کیس کی سماعت کی، پی ٹی آئی وکلا علی بخاری ایڈووکیٹ اور بیرسٹر علی گوہر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

وکلا نے عمران خان کے استثنیٰ کی درخواست دائر کرتے ہوئے بتایا کہ بیرسٹر علی ظفر عمران خان کی جانب سے وکالت کریں گے۔

بیرسٹر علی گوہر نے کہا کہ وکالت نامے پر دستخط نہیں ہوسکے اس لیے پیش نہیں کیا، آئندہ سماعت سے قبل وکالت نامہ جمع کرا دیں گے، عمران خان زخمی ہیں، 3 عدالتوں میں استثنیٰ کی درخواست دی ہے۔

عدالت نے کہا کہ ایسے بندے کی طرف سے درخواست آئی ہے جن کا وکالت نامہ بھی نہیں ہے، عمران خان کی طرف سے درخواست نہیں آئی۔

اس موقع پر بیرسٹر گوہر نے عمران خان کی طبی بنیاد پر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دے دی۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کو مصدقہ کاپیاں فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو کاپیاں فراہم کرنی ہیں۔

وکیل نے کہا کہ بیرسٹر علی ظفر لاہور ہائی کورٹ میں مصروف ہیں۔

الیکشن کمیشن کے جونیئر وکیل نے کہا کہ وکالت نامہ جمع نہیں ہوا، درخواست پر عمران خان کے دستخط بھی نہیں ہیں۔

علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ وکیل علی ظفر سینئر وکیل ہیں، کچھ پیشہ ورانہ احترام ہوتا ہے، واٹس ایپ پر میڈیکل رپورٹ منگوا لیں گے۔

عدالت نے کہا کہ اگر عمران خان کی جانب سے وکالت نامہ آجاتا تو مقدمے کی نقول آج ہی آپ کو دے دیتے۔

علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں کوئی تاریخ دے دیں، اگر فروری کی کوئی تاریخ دے دیں تو بہتر ہوگا۔

اسی دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن عدالت میں پیش ہوگئے اور کہا کہ عمران خان کی ضمانت تب تک منظور نہیں ہوسکتی جب تک وہ خود عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوجاتے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آج اگر عمران خان پیش نہیں ہوتے تو ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔

عدالت نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے کوئی وکالت نامہ ہی دے دیں، کیا عمران خان کی میڈیکل رپورٹ ساتھ لگائی ہے؟ عمران خان کی جانب سے تو درخواست بھی دائر نہیں کی ہوئی۔

بعد ازاں عدالت نے طبی بنیادوں پر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے اگلی سماعت پر حاضری کے لیے عمران خان کو نوٹس جاری کردیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے یا قابل ضمانت؟ عدالت نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کے حوالہ سے بھی دیکھ لیں گے۔

عدالت نے عمران خان کو طلب کرنے کے لیے دوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 31 جنوری تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ 22 نومبر کو اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی کے لیے طلب کیا تھا۔

15 دسمبر کو عدالت نے عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے توشہ خانہ ریفرنس پر کارروائی کے لیے دائر درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے انہیں 9 جنوری کو (آج) ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

قبل ازیں الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کو بھجوایا تھا۔

الیکشن کمیشن نے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کا حکم دیا تھا، توشہ خانہ ریفرنس الیکشن ایکٹ کے سیکشن 137 ، 170 ، 167 کے تحت بھجوایا گیا تھا۔

توشہ خانہ ریفرنس

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر کو عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سنایا تاہم فیصلہ سناتے وقت 4 ارکان موجود تھے کیونکہ رکن پنجاب بابر حسن بھروانہ طبیعت کی خرابی کے باعث کمیشن کا حصہ نہیں تھے۔

فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے، جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا، جھوٹ بولنے پر عمران خان عوامی نمائندگی کے اہل نہیں رہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل ہیں، سابق وزیراعظم نے جھوٹا بیان اور ڈیکلیئریشن جمع کروائی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

یوں فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کر دیا گیا اور ان کی نشست خالی قرار دے کر الیکشن کمیشن ضمنی انتخاب کروائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں