اختر مینگل نے 14 سال بعد بلوچستان کی رکنیت کا حلف اٹھالیا
کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ حکومت کو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کی جبری طور پر گمشدگی اور ہلاکتوں میں ملوث اداروں کے نام بتانے چاہئیں۔
انہوں نے 14 سال کے طویل عرصے کے بعد بدھ کے روز پارلیمنٹ سے حلف اٹھایا۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور ٹریژری اور حزب اختلاف اراکین نے انکی آمد پر خوش آمدید کہا۔
اپنی تقریر کے دوران انہوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران گمشدہ افراد میں سے 57 کی لاشیں بر آمد ہوئیں، 75 افراد گمشدہ ہوئے جبکہ 19 کو ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے لاشوں کو بلوچستان کے ریگستانوں میں پھینک دیا جاتا تھا پر یہ لاشیں کراچی سے بر آمد ہورہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے سیاسی کارکنان کسی سونامی یا قدرتی آفات کی وجہ سے نہیں بلکہ اداروں کی جانب سے قتل کیے جارہے تھے۔
اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے انکے سپریم کورٹ کو پیش کیے جانے والے چھ نکاتی ایجنڈے کی توثیق کی ہے تاہم اب وہ وقت آگیا ہے کہ ان پر عمل درآمد کیا جائے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈیرہ بگٹی، کوہلو اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں ابھی بھی آپریشن جاری ہے جبکہ کسی حکومت نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ خوبصورت بلوچستان اب ایک قبرستان کی مانند ہوگیا ہے۔
سردار اختر مینگل 1997 سے 1998 تک بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ انکی حکومت کو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے ختم کردیا تھا جبکہ جان محمد جمالی کو وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ بی این پی نے گیارہ مئی کے انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا تاہم بعدازاں مشاورت کے بعد پارٹی نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے آواز بلند کرنے کا اعلان کیا تھا۔












لائیو ٹی وی