معروف قانون دان لطیف آفریدی کے قتل میں ملوث ملزم 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

اپ ڈیٹ 17 جنوری 2023
لطیف آفریدی کی نماز جنازہ کے موقع پر سیکورٹی کے فل پروف انتظامات کیے گئے تھے — فوٹو:خوشحال خان ٹوئٹر
لطیف آفریدی کی نماز جنازہ کے موقع پر سیکورٹی کے فل پروف انتظامات کیے گئے تھے — فوٹو:خوشحال خان ٹوئٹر

سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی کو گزشتہ روز پشاور ہائی کورٹ کے بار روم میں فائرنگ کرکے قتل کرنے والے ملزم کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔

گزشتہ روز 80 سالہ لطیف آفریدی کو ملزم کی جانب سے اس وقت فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ پشاور ہائی کورٹ کے بار روم میں دیگر وکلا کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، انہیں فوری طور پر طبی امداد کے لیے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے جایا گیا تھا لیکن وہ جانبر نہیں ہوسکے تھے۔

سینئر قانون دان کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم عدنان سمیع آفریدی کو آج پشاور کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں جوڈیشل مجسٹریٹ بدر منیر نے ملزم کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

واقعے کے بعد سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کاشف عباسی نے بتایا تھا کہ پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا ہے اور اس کی شناخت عدنان سمیع اللہ آفریدی کے نام سے ہوئی ہے جو کہ مقتول کا رشتہ دار ہے، انہوں نے کہا تھا کہ پولیس کو شبہ ہے کہ یہ حملہ ’ذاتی دشمنی‘ کا شاخسانہ ہے۔

پولیس نے گرفتار ملزم کو ایسٹ کنٹونمنٹ تھانے منتقل کرکے اس کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

پولیس اسٹیشن کے ایک افسر نے ڈان کو بتایا کہ ملزم نے اعتراف جرم کر لیا ہے اور اس نے خاندانی تنازع پر قتل کا اقرار کیا۔

بتایا جاتا ہے کہ حملہ آور کے کزن آفتاب آفریدی جو سوات میں انسداد دہشت گردی کے جج تھے، گزشتہ سال فائرنگ کے واقعے میں قتل کردیے گئے تھے۔

لطیف آفریدی اور ان کے خاندان کے افراد کو مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا لیکن بعد میں انسداد دہشت گردی عدالت صوابی نے انہیں بری کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ پشاور کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) محمد اعجاز خان نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی ہے۔

کمیٹی اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ حملہ آور عدالت کے احاطے میں کس طرح ہتھیار لے کر داخل ہونے میں کامیاب ہوا اور 24 گھنٹے کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کی نماز جنازہ باغ ناران حیات آباد میں ادا کردی گئی

دوسری جانب مقتول لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کی نماز جنازہ باغ ناران حیات آباد میں ادا کردی گئی۔

معرورف قانون دان کی نماز جنازہ میں سیاسی، سماجی شخصیات اور علاقہ عمائدین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر کی نماز جنازہ میں وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید، میئر پشاور زبیر علی، قومی وطن پارٹی کے سربراہ سمیت دیگر اہم شخصیات اور عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

لطیف آفریدی کی نماز جنازہ کے موقع پر سیکورٹی کے فل پروف انتظامات کیے گئے تھے جب کہ سی سی پی او اعجاز احمد نے سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا۔

لطیف آفریدی کا قتل، ایک دور کا خاتمہ

نامور قانون دان لطیف آفریدی کا قتل ایک تاریخی دور کے خاتمے کے مترادف ہے جس نے وکلا برادری اور ان کے مداحوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

آج ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے لطیف آفریدی کے قتل کو بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ لطیف آفریدی بہت بڑی شخصیت تھے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل افتخار گیلانی سے استفسار کیا کہ کیا لطیف آفریدی کا تعلق کوہاٹ سے تھا؟ وکیل نے بتایا کہ لطیف آفریدی کا تعلق فرنٹیئر ریجن سے تھا، جنہیں گزشتہ روز بار روم میں قتل کیا گیا، اس واقعے نے رنجیدہ کردیا ہے۔

لطیف آفریدی جنہیں لطیف لالہ بھی کہا جاتا تھا، اپنے پیچھے شہری آزادی، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق، خاص طور پر سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے دہائیوں کی طویل جدوجہد کی میراث چھوڑ کر گئے ہیں۔

لطیف آفریدی ایڈووکیٹ 14 نومبر 1943 کو پیدا ہوئے، وہ 21-2020 کے دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہے، لطیف آفریدی پاکستان بار کونسل کے نائب صدر اور پشاور ہائی کورٹ بار کے صدر بھی رہے۔

لطیف آفریدی 1986 سے 1989 تک عوامی نیشنل پارٹی کے پہلے صوبائی صدر رہے، وہ 2005 سے 2007 تک اے این پی کے جنرل سیکریٹری رہے جب کہ 1997سے 1999کے دوران قومی اسمبلی کے رکن رہے۔

مقتول سینئر وکیل نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سینئر رہنما تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں