پی ٹی آئی کے 45 ارکان قومی اسمبلی کا استعفے واپس لینے کا فیصلہ

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
اسد عمر نے کہا کہ پارٹی چیئرمین عمران خان کی ہدایات کے مطابق 44 ارکان اسمبلی نے اپنے استعفے واپس لینے کا فیصلہ کیا—فائل فوٹو: اے پی پی
اسد عمر نے کہا کہ پارٹی چیئرمین عمران خان کی ہدایات کے مطابق 44 ارکان اسمبلی نے اپنے استعفے واپس لینے کا فیصلہ کیا—فائل فوٹو: اے پی پی

پاکستان تحریک انصاف کے تمام 45 اراکین قومی اسمبلی نے اپنے استعفے واپس لینے کا فیصلہ کرلیا۔

فیصلے کے اعلان کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی پارلیمنٹ کے بعد اسپیکر ہاؤس پہنچے جہاں انہوں نے داخلے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کرتے ہوئے دھرنا دیا اور پھر وہ الیکشن کمیشن آفس کے سامنے پہنچے۔

اس موقع پر سیکیورٹی حکام نے الیکشن کمیشن کے مرکزی دروازے کو خاردار تاریں لگا کہ بند کردیا، اس موقع پر الیکشن کمیشن کے مرکزی دروازے پر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔

پی ٹی آئی رہنما عامر ڈوگر اور ریاض فتیانہ پر مشتمل 2 رکنی بینچ کو الیکشن کمیشن کے اندر جانے کی اجازت دی گئی جہاں انہوں نے پی ٹی آئی اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو درخواست دی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہم 45 اراکین قومی اسمبلی اپنی درخواست واپس لے رہے ہیں، اسپیکر اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو استعفی واپس لینے سے متعلق آگاہ کردیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی اگر ہمارے استعفے منظور کرتے ہیں تو ہمیں ڈی نوٹیفائی نہ کیا جائے۔

الیکشن کمیشن کے باہر ریاض فتیانہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 45 ارکان اسمبلی نے استعفے واپس لے لیے ہیں، اسمبلی کے اندر حقیقی حزب اختلاف کا رہنما بنانا چاہتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے رہنما عامر ڈوگر نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کو لکھ دیا ہے کہ ہمارے 45 ارکان نے استعفے واپس لے لیے ہیں، ہمیں الیکشن کمیشن کے اندر نہیں جانے دیا جا رہا تھا۔

عامر ڈوگر نے الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر اور چاروں ممبران سے ملاقات ہوئی ہے، آج ہم اسمبلی گئے لیکن اسمبلی کے دروازے بند کر دیے گئے، اسپیکر کے گھر گئے لیکن منسٹر کالونی کو بھی بند کر دیا گیا، ہم نے چیف الیکشن کمیشن اور چاروں ممبران کے سامنے اپنا کیس رکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اور جو استعفی منظور کیے گٸے ان تمام پہلوٶں پہ بھی بات ہوٸی، پنجاب کے نگران وزیراعلی کی تعیناتی کے حوالے سے اپنا مؤقف پیش کیا جس پر چیف الیکشن کمشنر اور ممبران نے کہا کہ ہم نے اپنی آٸینی ذمہ داری نبھاٸی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ہماری قیادت کی اہم میٹنگ ہے، اس میں مستقبل کی حکمت عملی طے کی جاۓ گی، ہم 127 ارکان نے 10 اپریل کے بعد سے آج تک قومی اسمبلی سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہاکہ سپریم کورٹ نے ہمیں کہا کہ آپ اسمبلی میں جاٸیں اور اپنا کردار ادا کریں لیکن یہ حکومت سپریم کورٹ کے احکامات کی بھی نفی کر رہی ہے ۔

قبل ازیں پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں کہا تھا کہ کیونکہ اسپیکر قومی اسمبلی ابھی تک ہمارے تمام اسمبلی ارکان کے استعفے قبول نہیں کر رہے، اس لیے پارٹی چیئرمین عمران خان کی ہدایات کے مطابق 44 ارکان اسمبلی نے اپنے استعفے واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسد عمر نے بتایا کہ اس سلسلے میں اپنی درخواست اسپیکر قومی اسمبلی کو ای میل کردی ہے، پی ٹی آئی کا اگلا قدم اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی ہوگا۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے 41 ارکان قومی اسمبلی نے اپنے استعفے واپس لینے کی درخواست دی۔

پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست ای میل اور واٹس ایپ کے ذریعے متعلقہ حکام کو بھیجی گئی۔

پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے بھی ٹوئٹر پر جاری بیان میں فیصلے سے متعلق کہا کہ تحریک انصاف کے 45 اراکین اسمبلی نے اسپیکر قومی اسمبلی سے لیڈر آف اپوزیشن اور پارلیمانی پارٹی کے عہدے تحریک انصاف کو دینے کے لیے استعفے واپس لیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد جعلی اپوزیشن لیڈر سے جان چھڑانا اور اعتماد کے ووٹ میں لوٹوں کو شہباز شریف کو ووٹ دینے سے روکنا ہے۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ گزشتہ ہفتے ہی اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پاکستان تحریک انصاف کے 34 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کے چند روز بعد اس کے مزید 35 اراکین کے استعفے منظور کرلیے تھے جس کے بعد پی ٹی آئی کے مستعفیٰ اراکین کی تعداد 79 ہوگئی تھی۔

پی ٹی آئی نے گزشتہ سال اپریل میں پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی برطرفی کے بعد پارلیمنٹ کے ایوان زیریں سے اجتماعی استعفے دے دیے تھے، بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی نے صرف 11 ارکان کے استعفے منظور کیے تھے اور کہا تھا کہ باقی ارکان اسمبلی کو تصدیق کے لیے انفرادی طور پر طلب کیا جائے گا جب کہ کراچی سے رکن اسمبلی شکور شاد نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا تھا۔

بعد ازاں 17 جنوری کو بھی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے 34 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے تھے، اس کے علاوہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا استعفیٰ بھی منظور کرلیا تھا جب کہ تین روز بعد ہی 20 جنوری کو اسپیکر نے پی ٹی آئی کے مزید 35 اراکین کے استعفے منظور کرلیے تھے۔

اسپیکر کی جانب سے اب تک مجموعی طور پی ٹی آئی کے 79 اراکین اور شیخ رشید سمیت 80 ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے جاچکے ہیں۔

تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے استعفے

پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی نے 11 اپریل 2022 کو پارلیمنٹ میں اعتماد کے ووٹ کے ذریعے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد اپنے استعفے جمع کرائے تھے۔

اسمبلی سے بڑے پیمانے پر مستعفی ہونے کے فیصلے کا اعلان پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے 11 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کے انتخاب سے چند منٹ قبل اسمبلی کے فلور پر کیا تھا۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اپنے خط میں کہا کہ اس نے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو 30 مئی کو طلب کیا اور انہیں 6 سے 10 جون تک ذاتی طور پر پیش ہونے اور استعفوں کی تصدیق کا وقت دیا تھا لیکن ان میں سے کوئی نہیں آیا۔

اسپیکر نے جولائی میں پی ٹی آئی کے 11 اراکین کے استعفے قبول کرنے کی کوئی واضح وجہ بتائے بغیر ہی قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے تھے جن میں ڈاکٹر شیریں مزاری، علی محمد خان، فخر زمان خان اور فرخ حبیب بھی شامل تھے۔

اس کے بعد تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی مسلسل مزید ارکان کے استعفوں کی منظوری کا مطالبہ کرتے رہے لیکن اسپیکر قومی اسمبلی اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ اراکین اسمبلی ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر استعفوں کے ملاقات کریں۔

اسپیکر نے پارٹی سے پہلے ہی پوچھا تھا کہ قومی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007 کے رول 43 کے مطابق انہیں پارٹی کے چیئرمین عمران خان سمیت 127 اراکین قومی اسمبلی سے انفرادی طور پر ملاقات کرنی تھی، تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ آیا انہوں نے استعفے آزادانہ اور کسی دباؤ کے بغیر دیے ہیں یا نہیں۔

گزشتہ ماہ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو خط لکھ کر ان سے کہا تھا کہ وہ پارٹی کے تمام اراکین قومی اسمبلی کو انفرادی طور پر استعفوں کی تصدیق کے لیے بھیجیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں