سپریم کورٹ: جسٹس طارق مسعود نے مبینہ سائفرسے متعلق اپیلیں سننے سے معذرت کرلیں

اپ ڈیٹ 24 جنوری 2023
جج نے سائفر تحقیقات کے لیے دائر اپیلیں واپس چیف جسٹس کو بھجوا دی ہیں—فائل فوتو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جج نے سائفر تحقیقات کے لیے دائر اپیلیں واپس چیف جسٹس کو بھجوا دی ہیں—فائل فوتو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے جسٹس سردار طارق مسعود نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خلاف مبینہ سائفر سازش سے متعلق چیمبر اپیلیں سننے سے معذرت کرلی ہے۔

سپریم کورٹ میں امریکی سازش (سائفر) کے ذریعے عمران خان کی حکومت ہٹانے کی تحقیقات کے لیے چیمبر اپیلوں کی سماعت کرنا تھی۔

تاہم سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس سردار طارق مسعود نے سائفر کی تحقیقات کیلئے دائر اپیلیں سننے سے معذرت کرلی ہے۔

جج نے سائفر تحقیقات کے لیے دائر اپیلیں واپس چیف جسٹس کو بھجوا دی ہیں۔

یاد رہے کہ سائفر کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں تاہم رجسڑار آفس نے درخواستوں پر مختلف اعتراضات عائد کر کے واپس کر دیا تھا۔

تاہم 21 جنوری کو‏ ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ اور سید طارق بدر اور ایڈووکیٹ نعیم الحسن نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اعتراضات کے خلاف چیمبر اپیلیں دائر کر رکھی تھیں۔

تاہم آج ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس سردار طارق نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان سائفر تحقیقات کے لیے چیمبر اپیلوں کو کسی اور جج کے سامنے مقرر کر دیں۔

خیال رہے کہ بعض اوقات عدالتی دفتر کی جانب سے اعتراضات عائد کرتے ہوئے درخواستیں واپس کرلی جاتی ہیں جس میں سوال کیا جاتا ہے کہ دیگر متعلقہ فورم سے رجوع کیے بغیر درخواست گزار نے براہ راست عدالت عظمیٰ سے رجوع کیوں کیا؟ اس طرح مسترد کیے جانے کو عام طور پر درخواست گزاروں کی جانب سے چیلنج کیا جاتا ہے اور چیف جسٹس کے ذریعے نامزد کردہ جج اپنے چیمبر میں اس کی سماعت کرتے ہیں۔

قبل ازیں پی ٹی آئی کی حکومت کو مبینہ طور پر سازش کے تحت ہٹانے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں تاہم ‏رجسڑار آفس نے درخواستوں پر اعتراضات عائد کر کے واپس کر دی تھیں۔

سپریم کورٹ میں درخواستوں سے قبل سابق وزیراعظم عمران خان نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال کو خطوط لکھے تھے، جس میں ان سے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے کی تحقیقات کے لیے پبلک انکوائری اور جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ چیف جسٹس اور صدر کے پاس اس مراسلے کی کاپیاں ہیں جو اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید خان کو امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو نے دی تھیں۔

خطوط میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کا خیال تھا کہ مراسلے کے مندرجات ’وزیراعظم عمران خان‘ کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے کے لیے حکومت کی تبدیلی کی سازش کو واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں۔

چیف جسٹس اور صدر مملکت کے لکھے گئے خطوط میں کہا گیا تھا کہ اس وقت کی حکومت کی اتحادی جماعتوں کی وفاداری بدلنے اور پی ٹی آئی کے کچھ اراکین کی وفاداری کی خریدے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ’انجینئرڈ‘ تھا۔

کیبل گیٹ

گزشتہ برس اپریل میں موجودہ حکومتی اتحاد (پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ) نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیر ملکی سازش کا حصہ ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے ان کے خلاف باضابطہ طور پر تحریک عدم اعتماد دائر کرنے سے ایک دن قبل 7 مارچ کو سفیر سے موصول ہونے والی کیبل اس سازش کا ثبوت ہے۔

مراسلے کا معاملہ پہلی بار عمران خان نے 27 مارچ کو ایک عوامی ریلی میں عوامی سطح پر اٹھایا تھا۔

عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کے ذریعے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں دھمکی دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں الزامات نہیں لگا رہا، اس کا ثبوت میرے پاس موجود خط ہے۔

عمران خان نے اس موقع پر اپنی جیب سے خط نکالا، عوام کے سامنے لہرایا اور پڑھے بغیر واپس رکھ لیا تھا۔

تاہم حیرت انگیز طور پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کسی بھی خط کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

31 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس (جس کی صدارت خود عمران نے کی تھی) کے بعد ایک بیان میں لفظ ’سازش‘ کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن ’واضح مداخلت‘ کا اعتراف کیا گیا، جس کے بعد ملک میں ایک مضبوط ڈیمارچ بھیجا جائے گا جس کا نام نہیں لیا گیا تھا۔

اس کے بعد سے عمران خان نے کئی عوامی خطابات میں انہیں اقتدار سے ہٹانے کی مبینہ سازش کا ذکلر کرتے ہوئے اس مراسلے کا حوالہ دیا۔

اسی دوران 14 اپریل کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل نہیں ہے۔

بعدازاں 22 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا 38واں اجلاس ہوا، اجلاس میں امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر بریفنگ دی جس کے دوران بتایا گیا عمران خان کی حکومت کو ہٹانے میں کوئی غیر ملکی سازش ثابت نہیں ہوئی۔

اس کے بعد سائفر کے حوالے سے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور دیگر کی مبینہ آڈیو سامنے آئی تھی جس میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ اس سے کھیلتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں