نقیب اللہ محسود کے اہل خانہ کا راؤ انوار کی بریت سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2023
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ماڈل نقیب اللہ محسود کراچی میں مقیم تھے—فائل فوٹو: فیس بک اکاؤنٹ
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ماڈل نقیب اللہ محسود کراچی میں مقیم تھے—فائل فوٹو: فیس بک اکاؤنٹ

مقتول نقیب اللہ محسود کے بھائی علی شیر محسود نے کہا ہے کہ ان کا خاندان سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار اور ان کے 17 ماتحتوں کی بریت کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 22 سالہ نوجوان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ 23 جنوری کو ہائی پروفائل کیس کا فیصلہ سننے کے لیے وزیرستان سے کراچی آیا۔

انہوں نے کہا کہ میں اس روز ٹیلی ویژن چینلز دیکھ رہا تھا اور اچھی خبر سننے کی امید کے ساتھ اپنے وکیل سے مسلسل رابطے میں تھا۔

مقتول کے بھائی نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عدالت سے توقعات تھیں، ہم گزشتہ 5 برسوں سے اچھی خبر کے منتظر تھے لیکن ہمیں انصاف نہیں ملا اور عدالت نے تمام ملزم پولیس اہلکاروں کو بری کر دیا جب کہ عدالت نے خود ہی میرے بھائی کو بے گناہ قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ان کا خاندان جلد ہی سابق ایس ایس پی سندھ پولیس راؤ انوار اور دیگر پولیس اہلکاروں کو بری کرنے کے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرے گا۔

نقیب اللہ کے بھائی نے انصاف کے حصول کے لیے سپریم کورٹ تک جانے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔

علی شیر محسود نے کہا کہ جس وقت میرے بھائی کو قتل کیا گیا اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ہمارے گھر آئے تھے اور انہوں نے میرے والد کو انصاف دلانے میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔

واضح رہے کہ 23 جنوری کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کردیاتھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے جاری مختصر فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پراسکیوشن راؤ انوار اور دیگر ملزمان کے خلاف ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 14 جنوری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جس کی سماعت مکمل ہونے میں 5 برس لگے، یہ التوا سوشل میڈیا پر کراچی میں جعلی مقابلوں کے حوالے سے بحث اور خاص طور پر اس کیس سے جڑے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر تنقید کا سبب بنا۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ماڈل نقیب اللہ محسود کراچی میں مقیم تھے، ان کے قتل نے سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے غم و غصے کو جنم دیا اور سابق ایس ایس پی اور ان کی ٹیم کی گرفتاری میں ریاست کی ناکامی کے خلاف سول سوسائٹی کی جانب سے ملک گیر احتجاج کا سبب بنا۔

سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور ان کے تقریباً 2 درجن ماتحتوں کے خلاف 13 جنوری 2018 کو نقیب اللہ اور دیگر 3 افراد کو ’طالبان عسکریت پسند‘ قرار دے کر جعلی مقابلے میں قتل کرنے کا مقدمہ درج ہے۔

مارچ 2019 میں عدالت نے راؤ انور اور ان کے 17 ماتحتوں پر کراچی کے مضافات میں 4 افراد کے قتل پر فرد جرم عائد کی تھی۔

گزشتہ سال نومبر میں راؤ انوار نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں محکمہ جاتی چپقلش کی وجہ سے اس مقدمے میں پھنسایا گیا تھا لیکن وہ محکمہ پولیس کے ایسے کسی افسر کا نام نہ بتا سکے۔

مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے 51 گواہوں کی شہادتیں ریکارڈ کیں جن میں میڈیکو لیگل، فرانزک اور بیلسٹکس کے ماہرین، 9 خفیہ گواہ اور پولیس اہلکار شامل تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں