حکومت کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے درکار سخت اصلاحات کے تحت غیر ضروری سول اور سیکیورٹی اخراجات میں کٹوتی کے علاوہ بڑی برآمدی صنعتوں سے توانائی پر سبسڈی بھی واپس لینا پڑے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیئر حکومتی عہدیداروں نے بتایا کہ سربراہ آئی ایم ایف مشن برائے پاکستان ناتھن پورٹر حکام کے ساتھ (آج) تکنیکی امور پر بات چیت شروع کرنے کے لیے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں جو جمعہ (3 فروری) تک جاری رہے گی۔

اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی)کو حتمی شکل دینے کے لیے پالیسی مذاکرات کا دوسرا مرحلہ 9 فروری تک جاری رہے گا۔

ایک عہدیدار نے کہا کہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ ایسا منصوبہ طے کیا جائے گا جس سے ادائیگی کی صلاحیت میں اضافے کے ساتھ پہلے سے ہی سخت دباؤ کا شکار اکثریتی آبادی پر بڑے پیمانے پر مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کا بوجھ پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس بوجھ میں اضافے کا مطلب یہ ہوگا کہ متوسط طبقے، سول انتظامیہ، مسلح افواج اور عدلیہ سمیت معاشرے کے تمام طبقات کو موجودہ طرزِ زندگی کی قربانی دینا ہوگی جسے مزید برقرار رکھنا اب ممکن نہیں رہا۔

حکام نے اعتراف کیا کہ تقریباً 30 فیصد آبادی پہلے ہی خط غربت سے نیچے ہے اور ان کی دیکھ بھال سماجی شعبے کے مختلف سپورٹ پروگراموں کے ذریعے کی جا رہی ہے جبکہ 22 سے 25 فیصد مزید آبادی مہنگائی کے سب سے زیادہ اثرات سے دوچار ہے اس لیے انہیں مزید دھچکوں سے محفوظ رکھنا ہوگا، اس کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایم ایف مشن اس صورتحال کا ہمدردانہ نقطہ نظر سے جائزہ لے۔

لہذا حکام کو مضبوط پالیسی اقدامات کا اعلان کرنا ہوگا اور ان پر فوری عمل درآمد شروع کرنا ہوگا، ان میں پاور سیکٹر میں 25 کھرب روپے سے زائد کے گردشی قرضے، اخراجات میں کمی اور ٹیکس اقدامات کے ساتھ ساتھ ایک روڈ میپ پیش کیا جائے گا، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ سیلاب سے متعلق ضروری اخراجات کے تخمینے کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں فریق کس طرح اتفاق رائے پیدا کرتے ہیں۔

اصلاحات کا زور مستقل مسائل پر ہوگا اور تقریباً ہر جگہ اور ہر ادارے میں کٹوتیاں کی جائیں گی اور ان کے نمائندگان کو اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔

اس حوالے سے سیاسی سطح پر عزم ظاہر کرنے کے لیے کابینہ کے حجم میں نمایاں کمی، سرکاری خرچ پر ایک سے زائد پلاٹوں سے دستبرداری، تمام بےمقصد اور اضافی سبسڈیز کی واپسی شامل ہے، ان میں خاص طور پر برآمد کنندگان کو فراہم کردہ سبسڈی کے لیے مختص 120 ارب کا بجٹ بھی شامل ہے جس کا اعلان 4 ماہ قبل کیا گیا تھا۔

حکام کی جانب سے ڈالر ریٹ پر کیپ ہٹانے کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا ہے، جس کے نتیجے میں ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں ڈالر کی قدر میں 40 روپے اضافہ ہوگیا ہے، علاوہ ازیں پالیسی ریٹ بھی ایک فیصد اضافہ کر کے 17 فیصد کر دیا گیا ہے تاکہ 4 ماہ سے زیرالتوا نویں جائزے کے لیے آئی ایم ایف مشن کی راہ ہموار ہوسکے۔

حکومت نے 19 جنوری کو باضابطہ طور پر آئی ایم ایف کو چاروں اہم شرائط کو قبول کرنے پر اپنی رضامندی سے آگاہ کردیا تھا اور ڈیفالٹ کو روکنے کے لیے آئی ایم ایف مشن سے درخواست کی تھی کہ وہ قرض پروگرام کے 3 ارب ڈالر پر بات چیت کے لیے اسلام آباد کا دورہ کریں۔

آئی ایم ایف نے پہلے ہی یہ واضح کر دیا ہے کہ اس کا مشن ملکی اور بیرونی استحکام کو بحال کرنے کی پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرے گا، اس میں مستحق اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کرتے ہوئے پائیدار اور اعلیٰ معیار کے اقدامات کے ساتھ مالیاتی پوزیشن کو مضبوط بنانا، پاور سیکٹر کی عملداری کو بحال کرنا، گردشی قرضے مسلسل جمع ہونے سے روکنا اور ایف ایکس مارکیٹ کو دوبارہ مناسب انداز میں فعال کرنا شامل ہے۔

پاکستان کو بین الاقوامی ادائیگیوں کو پورا کرنے کے لیے رواں مالی سال کے بقیہ 5 ماہ کے دوران تقریباً 8 سے 9 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس موجود ذخائر محض 3 ارب ڈالر سے کچھ ہی زیادہ ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ دونوں فریقین پاور سیکٹر میں تقریباً 7.50 روپے فی یونٹ کے اوسط ٹیرف میں اضافے ، تمام پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی 40 روپے سے بڑھا کر 50 روپے کرنے اور منی بجٹ کے ذریعے 500 سے 700 ارب روپے تک کے محصولات کے اقدامات کے ساتھ 803 ارب روپے سے زائد کے مالیاتی فرق کو پورا کرنے کی راہ تلاش کریں گے۔

گیس کی قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف کے سابقہ بینچ مارک کے مطابق نہیں ہے لیکن اس شعبے میں 16 کھرب روپے سے زائد کا گردشی قرضہ گیس کمپنیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور پہلے سے بڑھتے مالیاتی خسارے پر مزید بوجھ بڑھا رہا ہے اس لیے یہ پہلو بھی مذکرات کا حصہ ہوگا۔

آئی ایم ایف کی جانب سے یہ پہلے ہی واضح کیا جا چکا ہے کہ موجودہ غیر یقینی صورتحال کو قابو کرنے کے لیے مضبوط پالیسی اقدامات اور اصلاحات بہت ضروری ہیں جس پر دوست ممالک اور مارکیٹوں سے مالیاتی تعاون کے حصول کا دارومدار ہے جو کہ پاکستان کی پائیدار ترقی کے لیے ضروری ہے۔

واضح رہے کہ وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان تعطل کی وجہ سے دوست ممالک نے اپنی وعدہ شدہ اضافی امداد کو روک رکھا تھا جن میں سعودی عرب کی جانب سے تقریباً 2 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات کی جانب سے ایک ارب ڈالر اور چین کی جانب سے تقریبا 2 ارب ڈالر شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں