اسامہ ستی قتل کیس میں نامزد 2 ملزمان کو سزائے موت، 3 کو عمر قید کی سزا

اپ ڈیٹ 06 فروری 2023
ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے محفوظ فیصلہ پڑھ کر سنایا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے محفوظ فیصلہ پڑھ کر سنایا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی عدالت نے پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے نوجوان اسامہ ستی کے قتل کیس میں نامزد 2 ملزمان کو سزائے موت اور 3 کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے اسامہ ستی قتل کیس کا محفوظ فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

ملزمان افتخار احمد ،سعیداحمد ،شکیل احمد اور محمد مصطفیٰ کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت پیش کیا گیا، فیصلہ سنائے جانے سے قبل عدالت کے حکم پر تمام میڈیا نمائندگان اور غیر متعلقہ افراد کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا گیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں افتخار احمد اور محمد مصطفی کو سزائے موت کی سزا سنائی جبکہ سعید احمد، شکیل احمد اور مدثر مختار کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

عدالت نے اپنے تحریری مختصر فیصلے میں پانچوں مجرمان کے وارنٹ جاری کردیے، عدالت نے مجرمان محمد مصطفیٰ اور افتخار احمد کے سزائے موت کے وارنٹ جاری کردیے۔

عدالتی فیصلے میں حکم دیا گیا ہے کہ محمد مصطفیٰ اور افتخار احمد ایک ایک لاکھ روپے مدعی کو بطور زر تلافی ادا کریں، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مجرمان محمد مصطفیٰ اور افتخار احمد کی جانب سے مدعی کو زر تلافی ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید ایک ایک سال قید کی سزا ہوگی۔

عدالتی فیصلے میں دیگر دفعات کےتحت مجرمان محمد مصطفیٰ اور افتخار احمد کو 3.3 سال قید اور 20.20 ہزار روپے جرمانے کی سزا دی گئی ہے۔

عدالت نے مجرمان شکیل احمد، سعید احمد اور مدثر مختار کے عمر قید کے وارنٹ سپریڈنٹ اڈیالہ جیل کو جاری کردیے، عدالتی فیصلے میں حکم دیا گیا ہے کہ تینوں مجرم ایک ایک لاکھ روپے بطور زر تلافی مدعی کو ادا کریں۔

عدالتی فیصلے میں دیگر دفعات کے تحت مجرمان شکیل، سعید اور مدثر کو تین تین سال قید اور بیس بیس ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ اسامہ ستی قتل کیس میں سزا پانے والے تمام پولیس اہلکاروں کا تعلق محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) سے ہے۔

پسِ منظر

2 جنوری 2021 کو اے ٹی ایس پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے 22 سالہ نوجوان اسامہ ستی جاں بحق ہوگیا تھا جس کے بعد پولیس نے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے 5 اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس ضمن میں ترجمان اسلام آباد پولیس نے بتایا تھا کہ پولیس کو رات کو کال موصول ہوئی کہ گاڑی میں سوار ڈاکو شمس کالونی کے علاقہ میں ڈکیتی کی کوشش کررہے ہیں۔

جس کے بعد علاقہ میں گشت پر معمور اے ٹی ایس پولیس اہلکاروں نے مشکوک گاڑی کا جی-10 تک گاڑی کا تعاقب کیا، تاہم اس کے نہ رکنے پر گاڑی کے ٹائروں پر فائر کیے جس میں سے 2 فائر گاڑی کے ڈرائیور کو لگ گئے اور اس کی موت واقع ہوگئی۔

دوسری جانب نوجوان کے قتل کا مقدمہ والد کی مدعیت میں تھانہ رمنا میں درج کرلیا گیاجس میں دفعہ 302 (قتل) کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعہ 7 بھی لگائی گئی۔

مذکورہ مقدمے میں مدثر اقبال، شکیل احمد، محمد مصطفیٰ، سعید احمد اور افتخار احمد نامی اہلکاروں کو نامزد کیا گیا۔

نوجوان کے والد ندیم یونس ستی نے مقدمے میں مؤقف اپنایا کہ میرا جواں سالہ بیٹا اسامہ ندیم ستی میرے ساتھ جی-10 مرکز میں کاروبار کرتا تھا اور وہ 2 جنوری کی رات تقریباً 2 بجے اپنے دوست کو ایچ-11 نزد نسٹ یونیورسٹی چھوڑنے گیا تھا تو مدثر مختار، شکیل احمد، سعید احمد، محمد مصطفیٰ اور افتخار احمد نامی پولیس اہلکاروں جن سے ایک دن قبل میرے بیٹے کی تلخ کلامی اور جھگڑا ہوا تھا، جس کا ذکر میرے بیٹے نے مجھ سے کیا تھا۔

والد نے ایف آئی آر میں مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد پولیس کے ان ملازمین نے میرے بیٹے کو دھمکی دی تھی کہ تمہیں مزہ چکھائیں گے۔

انہوں نے کہا پولیس اہلکاروں نے مرکزی شاہراہ پر گاڑی پر 17 گولیاں چاروں اطراف سے چلائیں جس سے میرے بیٹے کی جان چلی گئی۔

8 جنوری 2021 کو سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد نے اسامہ ستی قتل کیس میں ملوث پانچوں اہلکاروں (سب انسپکٹر افتخار، کانسٹبل مصطفیٰ، شکیل، مدثر اور سعید) کو برطرف کردیا تھا۔

ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے اسامہ ستی کیس کے ٹرائل میں حتمی دلائل سننے کے بعد 31 جنوری 2023 کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جوکہ آج سنا دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں