الیکشن کی تاریخ پر مشاورت کے فیصلے کی تشریح کیلئے گورنر کی درخواست پر فریقین کو نوٹس

اپ ڈیٹ 16 فروری 2023
گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمٰن کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں گورنر سے مشاورت کے حوالے جو لکھا ہے اسے حذف کردیا جائے— فائل فوٹو: ٹوئٹر
گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمٰن کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں گورنر سے مشاورت کے حوالے جو لکھا ہے اسے حذف کردیا جائے— فائل فوٹو: ٹوئٹر

گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمٰن نے صوبے میں الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کے فیصلے کی وضاحت کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔

گورنر پنجاب کی جانب سے ایڈووکیٹ محمد شہزاد شوکت نے درخواست دائر کی جس میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے سنگل بینچ کے فیصلے کی تشریح کی درخواست کی گئی ہے۔

جسٹس چوہدری محمد اقبال کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے گورنر پنجاب کی اپیل پر سماعت کی۔

گورنر پنجاب کے وکیل شہزاد شوکت نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین اور الیکشن ایکٹ دو الگ الگ چیزیں ہیں، آئین کے مطابق گورنر کا کردار غیر سیاسی ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے لیے گورنر کے پاس سمری آئی، گورنر اس عمل کا حصہ نہیں بنے اور سمری پر دستخط نہیں کیے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ گورنر آرٹیکل 105 کے تحت الیکشن کی تاریخ دینے کے پابند نہیں، اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو پھر گورنر تاریخ دینے کے پابند ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سنگل بینچ نے الیکشن کی تاریخ کے لیے الیکشن کمیشن کو گورنر سے مشاورت کی ہدایت کی، لہٰذا سنگل بینچ کے فیصلے میں گورنر سے مشاورت کے حوالے جو لکھا ہے اسے حذف کردیا جائے۔

لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن، تحریک انصاف سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کرنے کے ساتھ ساتھ اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو بھی معاونت کے لیے نوٹس جاری کردیے۔

عدالت نے مقدمے کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کردی۔

سنگل بینچ نے الیکشن کمیشن کو تاریخ سے متعلق گورنر سے مشاورت کا حکم دیا تھا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالتی فیصلے میں حقائق اور حالات کو بالکل فراموش کردیا گیا ہے، یہ واضح طور پر غیر قانونی ہے اس لیے اس فیصلے کو خارج کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ سنگل رکنی بینچ تاریخ رکھنے اور الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے آئین پاکستان کی شقوں کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ 2017 پر غور کرنے میں ناکام رہا کیونکہ قانون کے تحت اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرتا ہے تو وہ الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا پابند ہے لیکن اس معاملے اسمبلی گورنر نے تحلیل نہیں کی اس لیے ان کی جانب سے تاریخ مقرر کرنے کا سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

درخواست گزار نے کہا کہ گورنر کے پاس ایسا کوئی آئینی اختیار نہیں کیونکہ گورنر نے اسمبلی تحلیل پر دستخط ہی نہیں کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ معزز عدالت نے گورنر کو تاریخ کے تعین کے لیے الیکشن کمیشن سے مشاورت کی ہدایت کی ہے لیکن یہ فیصلہ سراسر غیر قانونی ہے کیونکہ آئین پاکستان اور الیکشن کمیشن ایکٹ دونوں میں ہی ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو گورنر کو اس کا پابند کرتا ہو۔

درخواست میں کہا گیا کہ اب الیکشن کئی تاریخ کے تعین کے حوالے سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا اختیار وزیر اعلیٰ کے پاس ہے اور گورنر اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ اور کابینہ کی سفارش پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر مذکورہ حکمنامے کو خارج نہ کیا گیا تو درخواست گزار کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا، لہٰذا عدالت سے استدعا کی کہ لاہور ہائی کورٹ سنگل بینچ کے فیصلے کی تشریح کرے۔

یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست منظور کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا حکم دیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے اور اسی لیے الیکشن کا شیڈول فوری طور پر جاری کیا جائے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا ہے کہ ’الیکشن کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ صوبے کے آئینی سربراہ گورنر پنجاب سے مشاورت کے بعد پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نوٹیفکیشن کے ساتھ فوری کرے اور یقینی بنائے کہ انتخابات آئین کی روح کے مطابق 90 روز میں ہوں‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں