توشہ خانہ تحائف: وہ بہتی گنگا جس میں سب نے ہاتھ دھوئے

سابق صدر آصف علی زرداری نے بطور صدر اپنے دور میں کم از کم 182 تحائف وصول کیے — تصاویر: ڈان نیوز/فیس بک
سابق صدر آصف علی زرداری نے بطور صدر اپنے دور میں کم از کم 182 تحائف وصول کیے — تصاویر: ڈان نیوز/فیس بک

سال 2002 سے توشہ خانہ سے مستفید ہونے والوں کی فہرست کے اجرا نے مختلف سوالات کو جنم دیا ہے، جن میں تحائف کی قیمت کا کم اندازہ اور بدلے کی غیر اعلانیہ پالیسی شامل ہے، جس کے بارے میں حکام کہتے ہیں کہ ابھی جانچ پڑتال باقی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کے آخر میں حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ یہ صرف پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان ہی نہیں تھے جنہوں نے سرکاری ریاستی رجسٹری سے تحائف کی خریداری کے قوانین سے فائدہ اٹھایا بلکہ شوکت عزیز سے لے کر شہباز شریف تک تقریباً ہر وزیر اعظم نے توشہ خانہ سے چیزیں خریدیں یا رکھ لیں۔

اس فہرست میں عام مشتبہ افراد شامل ہیں، جیسے کہ سیاست دان اور بیوروکریٹس، لیکن چیزوں کی فہرست اور ان میں دلچسپی حیران کن ہے کہ شرٹس، رومال، ساڑھیاں، قمیضوں کے کپڑے، گھڑیاں، پھل، سجاوٹی خنجر اور کف لنکس وغیرہ تک حاصل کیے گئے۔

مثال کے طور پر سابق صدر آصف علی زرداری نے بطور صدر اپنے دور میں کم از کم 182 تحائف وصول کیے اور ان تحائف کے بدلے کچھ ادائیگی کرنے کے بعد تقریباً تمام کو اپنے پاس رکھ لیا۔

آصف زرداری نے ایک لیکسس اور ایک بی ایم ڈبلیو، جن کی قیمت 10 کروڑ 7 لاکھ روپے سے کچھ زیادہ تھی لیکن 26 جنوری 2009 کو ان گاڑیوں کو اپنے پاس رکھنے کے لیے ایک کروڑ 61 لاکھ 70 ہزار روپے ادا کیے۔

یہ تحائف کسی سرکاری عہدے دار کے پاس رکھے گئے سب سے مہنگے تحائف میں سے ہیں۔

عمران خان، جنہیں عدالتی کارروائی کا بھی سامنا ہے، نے اقتدار میں آنے کے چند ہفتوں بعد 24 ستمبر 2018 تک 10 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے تحائف اپنے پاس رکھے، اور انہیں رکھنے کے لیے 2کروڑ ایک لاکھ روپے ادا کیے۔

جاری کردہ دستاویزات کے مطابق اپنی اہلیہ کے ساتھ، سابق وزیر اعظم کو 111 سے زیادہ تحائف ملے جن میں سے بیشتر کو انہوں نے اپنے پاس رکھا۔

18 مئی 2021 کو سابق وزیر اعظم کی اہلیہ کو موصول ہونے والا ایک علیحدہ تحفہ 58 لاکھ روپے کے مقابلے میں 29 لاکھ روپے ادا کرنے کے بعد لیا گیا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی اہلیہ کلثوم نواز کو کم از کم 65 تحائف موصول ہوئے، سابق وزیر اعظم نے ان تحائف میں سے زیادہ تر اپنے پاس رکھنے کا انتخاب کیا جس میں مہنگی گھڑیاں اور ایک بلٹ پروف گاڑی شامل تھی۔

جنوری 2016 میں نواز شریف نے 3 کروڑ 80 لاکھ روپے کے تحائف وصول کیے جنہیں اپنے پاس رکھنے کے لیے 76 لاکھ روپے ادا کیے، فروری 2016 میں نواز شریف نے ایک کروڑ 60 لاکھ روپے سے زیادہ کے تحائف اپنے پاس رکھنے کے لیے 32 لاکھ روپے سے کچھ زیادہ کی ادائیگی کی۔

کلثوم نواز نے 13 جنوری 2016 کو 5 کروڑ 40 لاکھ روپے سے زائد کے قیمتی تحائف حاصل کرنے کے لیے ایک کروڑ 8 لاکھ روپے ادا کیے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی اہلیہ ثمینہ شاہد نے اکتوبر 2017 میں ایک جیولری سیٹ کے عوض ایک کروڑ 99 لاکھ روپے ادا کرنے کے بعد 9 کروڑ 90 لاکھ روپے سے زائد کا تحفہ اپنے پاس رکھا۔

شاہد خاقان عباسی کے بیٹے نادر خاقان نے 17 اپریل 2018 کو ایک کروڑ 70 لاکھ روپے کی گھڑی رکھنے کے لیے 30 لاکھ روپے ادا کیے، اسی طرح ان کے دوسرے بیٹے عبداللہ خاقان نے 55 لاکھ روپے کی گھڑی کے مقابلے میں 10 لاکھ 90 ہزار روپے ادا کیے۔

گزشتہ سال 12 مئی کو وزیر اعظم شہباز شریف کو 14 کروڑ روپے کی رولیکس گھڑی ملی تھی جو انہوں نے توشہ خانہ میں جمع کرادی، دستاویز کے مطابق یہ گھڑی وزیراعظم ہاؤس میں نمائش کے لیے رکھی گئی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے 5 دسمبر 2017 کو متعدد تحائف اپنے پاس رکھے جن کی مالیت کم از کم 4 کروڑ 40 لاکھ روپے تھی، تاہم وزیر نے ان تحائف کے حصول کے لیے 88 لاکھ روپے ادا کیے۔

مرحوم فوجی آمر پرویز مشرف نے توشہ خانہ کے قوانین کو مکمل طور پر نظر انداز کیا، انہیں 6 درجن سے زائد تحائف موصول ہوئے جن میں سے زیادہ تر انہوں نے اپنے پاس رکھے۔

پرویز مشرف نے زیادہ تر تحائف مفت حاصل کیے جبکہ کچھ کی معمولی قیمت ادا کی، 22 اپریل 2006 کو انہیں ایک ٹویوٹا لیکسس تحفے میں دی گئی جس کی قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکا کیونکہ سابق صدر نے تحفہ ظاہر تو کیا تھا لیکن وہ اسے سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرایا تھا۔

ان کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے بھی یہی کیا، انہوں نے بھی اسی روز ٹویوٹا لیکسس کو ظاہر کیا لیکن تحفہ جمع نہیں کرایا جبکہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے ٹویوٹا وی ایکس آر کو ظاہر کیا لیکن تحفہ جمع نہیں کرایا۔

تحائف کی قیمت کا کم تخمینہ

ڈان نے جن ماہرین سے بات کی انہوں اشیا کی کم قیمت کی نشاندہی کی، جن کی تخمینہ لاگت نمایاں طور پر کم رکھی گئی تھی اور وصول کنندگان کو ناجائز فائدہ دینے کے لیے انہیں حاصل کرنے کی لاگت اور بھی معمولی تھی۔

ماہرین نے ایک اور بے ضابطگی کو بھی اجاگر کیا ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اشیا کے شرح تبادلہ میں گڑ بڑ کی گئی۔

ملک میں مہنگائی کی شرح جو ہمیشہ سے بڑھتی رہی ہے، اس کے پیش نظر موجودہ دور میں قیمت کا تعین مہنگائی اور شرح تبادلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جانا چاہیے تھا، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان عوامل کو مدنظر رکھا جاتا تو ’تحائف‘ کی قیمت حیران کن ہوتی۔

ایک ماہر معاشیات جاوید حسن نے خریداریوں کی تشریح کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ’یہ تحائف 2009 میں تخمینہ شدہ قیمت کے 20 فیصد پر برقرار رکھے گئے تھے، اس کے بعد قیمت کو بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا، یہ 30 فیصد بہت بڑا فرق بن جاتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ 13 برس کی مجموعی افراط زر کو شامل کریں، کیونکہ فہرست اب سامنے آئی ہے، تو سرکاری خزانے کو پہنچنے والا نقصان 3 اور 4 گنا بڑھ جاتا ہے‘۔

جاوید حسن کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس قانون سے نمٹنے کی ضرورت ہے جو حکمران اشرافیہ کو اس قسم کی تباہی کی اجازت دیتا ہے، ان تحائف کو نیلام نہیں کرنا چاہیے، سوائے ان چیزوں کے جو وقت گزرنے کے ساتھ اپنی قدر کھو دیتی ہیں (جیسے گاڑیاں)، باقی چیزوں کو مناسب جگہوں پر نمائش کے لیے ریاست کے پاس ہونا چاہیے‘۔

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے اسے ’اشرافیہ کے قبضے‘ کا ایک اور عکس قرار دیا اور کہا کہ اس کا حل یہ ہے کہ اسے روکا جائے اور افراد کو ان تحائف کے حصول سے روکنے کا قانون لاگو کرنا چاہیے۔

انہوں نے تجویز دی کہ آپ ان کے ساتھ جو بھی کرنا چاہتے ہیں کریں، انہیں ہالز میں نمائش کے لیے پیش کریں، انہیں عوام کے لیے نیلام کریں اور ریاست کو رقم دیں لیکن ریاستی عہدیداروں کی جانب سے انفرادی خریداری روک دیں۔

البتہ ماہر تعلیم اور سابق نگراں وزیر اعلیٰ حسن عسکری رضوی کا خیال ہے کہ قانون اس طرح کی خریداریوں کا احاطہ کرتا ہے، ان کے خیال میں یہ مسئلہ ایسی خریداریوں کی اخلاقیات سے متعلق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک کٹ آف لائن (قیمت کے لحاظ سے) ہونی چاہیے جس سے آگے تمام تحائف ریاست کو جانے چاہئیں، کسی کو بھی انہیں اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، یا اگر کسی کو کرنا پڑے تو اسے 100 فیصد قیمت ادا کرنی چاہیے۔

2002 سے پہلے کے برسوں کے اعداد و شمار کے اجرا کا مطالبہ کرتے ہوئے معروف صحافی اور ٹی وی میزبان طلعت حسین نے سوال کیا کہ کیا صرف سیاست دان یا بیوروکریٹس ہی اس سے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا فوجی افسران، ججز اور وزرائے اعلیٰ بھی اس سے مستفید ہوئے؟ اگر ہاں تو ان کی فہرست کہاں ہیں۔

بدلے میں کیا دیا گیا

ایسے میں کہ جب کہ ہر کوئی یہ جاننے میں مصروف ہے کہ کس نے کیا حاصل کیا، ایک زاویہ جسے اب تک نظر انداز کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی سرکاری وفد تحفہ وصول کرتا ہے تو بہت سے معاملات میں اس کا بدلہ بھی دینا پڑتا ہے۔

ان جوابی تحائف کی قیمتیں، جن کے بارے میں ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ریاست کے پیسے پر خریدے جاتے ہیں، وہ بھی لاکھوں روپے میں بنتی ہے۔

اعلیٰ ترین ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ’جب صدر، وزیراعظم، وفاقی وزیر یا وفاقی سیکریٹری کو کوئی تحفہ ملتا ہے تو وہ دوسری جانب سے بھی تحائف دیتے ہیں اور یہ تحائف ریاست یا متعلقہ وزارت خریدتی ہے‘۔

ان اشیا میں تلواریں، قالین، چمڑے کی اشیا، اونی شال، پینٹنگز، شو پیس، یادگاری اشیا، زیورات، سونے کے زیورات اور زیورات کے باکس وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں۔

تاہم جب کہ ریاستی عہدیداروں کو موصول ہونے والے زیادہ تر تحائف کا ریکارڈ موجود ہے، اس کے بدلے میں ان سرکاری عہدیداروں کی جانب سے دیے گئے تحائف اور ان اشیا پر کتنا خرچ کیا گیا اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

کوئی قانون نہیں توڑا گیا

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، جو خود کو توشہ خانہ کے تحائف سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں میں سے ایک ہیں، نے پیر کی رات ’جیو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی تحفہ وصول کرنے والا اس کا واحد مالک ہے اور وہ اسے توشہ خانہ کی مقرر کردہ 20 فیصد لاگت کی ادائیگی کے بعد فروخت کرنے کا حق رکھتا ہے۔

اینکر پرسن شاہ زیب خانزادہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ تحائف افراد کو دیے گئے تھے نہ کہ عوامی عہدے کو، یہ تحائف افراد کی ملکیت ہیں نہ کہ عہدوں کی‘۔

سابق وزیراعظم نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انہوں نے توشہ خانہ سے حاصل کی ہوئی کئی اشیا کو دوستوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کرتے ہوئے دوبارہ تحفے میں دیا تھا۔

تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر غیر ملکی تحائف فروخت کرنا کوئی جرم نہیں ہے، تو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کٹہرے میں کیوں ہیں، شاہد خاقان عباسی نے جواب دیا کہ عمران خان کا ’جرم‘ ان اشیا کی قیمت کا 20 فیصد توشہ خانہ کو ادا کرنے سے پہلے انہیں فروخت کرنا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں