اسلام آباد ہائیکورٹ: عمران خان کی 7 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور

عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے اس پیش رفت کی تصدیق کی — فوٹو: مسرت چیمہ/ٹوئٹر
عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے اس پیش رفت کی تصدیق کی — فوٹو: مسرت چیمہ/ٹوئٹر
عمران خان کی گاڑی اسلام آباد ہائی کورٹ کے دروازے پر موجود ہے — فوٹو: پی ٹی آئی/ٹوئٹر
عمران خان کی گاڑی اسلام آباد ہائی کورٹ کے دروازے پر موجود ہے — فوٹو: پی ٹی آئی/ٹوئٹر

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی 7 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور کرلی۔

عمران خان کی جانب سے اپنے خلاف تھانہ گولڑہ، تھانہ بہارہ کہو، تھانہ رمنا، تھانہ کھنہ اور توشہ خانہ کیس کے لیے جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے دوران ہنگامہ آرائی پر درج مقدمات سمیت 7 مقدمات میں عبوری ضمانتیں حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئیں۔

بیرسٹر سلمان صفدر کے توسط سے دائر درخواستوں میں کہا گیا کہ اگر عمران کو گرفتار کیا گیا تو انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ واحد سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے ناطے یہ خدشہ ہے کہ اگر درخواست گزار کو ضمانت قبل از گرفتاری نہ دی گئی تو ان کے سیاسی مخالفین اپنے مذموم سیاسی عزائم جاری رکھ سکیں گے۔

سماعت کا آغاز

عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ درخواستوں پر بائیو میٹرک کا اعتراض لگایا گیا ہے، عمر 60 سال سے زائد ہوجائے تو مشکل ہوتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیوں؟ 60 سال کے بعد انگوٹھے کا نشان غائب ہو جاتا ہے؟ ابھی تو بہت آسان ہے، کسی بھی ایزی پیسہ دکان سے بائیو میٹرک کرا کر جمع کرائیں۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ میرے مؤکل کے خلاف مزید 7 مقدمات درج کیے گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرار آفس کا اعتراض ہے کہ ٹرائل کورٹ کیوں نہیں گئے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اس کی بھی بہت ساری وجوہات ہیں کہ ٹرائل کورٹ کیوں نہیں گئے، سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ٹرائل کورٹ نہیں گئے، جوڈیشل کمپلیکس آخری پیشی پر گئے تو گیٹ پر 45 منٹ تک روکا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدالتوں کے فیصلوں کو چھوڑ دیں، صرف اتنا بتا دیں کہ ٹرائل کورٹ کو کیوں چھوڑا؟ ٹرائل کورٹ کو بائی پاس کرکے اسلام آباد ہائی کورٹ کیوں آئے؟

انہوں نے کہا کہ ’امن و امان کی صورتحال آپ نے برقرار رکھنی ہے، اگر آپ عدالت پیشی پر 10 ہزار لوگوں کے ساتھ لائیں گے تو لا اینڈ آرڈر کے حالات تو ہوں گے، درخواست گزار ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور ان کی فالورشپ ہے۔

اس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ہم کسی کو نہیں بلاتے، لوگ خود آتے ہیں۔

اس دوران سابق وزیر اعظم عمران خان اٹھ کر روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’خان صاحب! آپ جا کر کرسی پر بیٹھ جائیں‘۔

عمران خان نے کہا کہ میں بس وضاحت دینا چاہتا تھا کہ ۔۔، اور جملہ پورا کیے بغیر کرسی پر واپس چلے گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کو سیکیورٹی خدشات ہیں جو جینوئن ہوں گے، ان پر ایک مرتبہ حملہ بھی ہو چکا ہے۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون کو روسٹرم پر بلا لیا۔

جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ عدالت نے متعدد بار چیف کمشنر کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا کہا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو ایف ایٹ کچہری سے جوڈیشل کمپلیکس شفٹ کیا گیا، عمران خان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پر امن ماحول کو یقینی بنائیں، یہ وہاں گاڑی سے نہیں اترے اور ان کے لوگوں نے وہاں گاڑیاں جلا دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر شہری کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، ریاست اپنا کام کرے اور حفاظت یقینی بنائے۔

جہانگیر جدون نے کہا کہ ہائی کورٹ میں جو ڈیکورم ہے وہ وہاں رکھنا مشکل ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سیکیورٹی فراہم نہیں کرتے تو پھر وہ کیا کریں، ہمارے پاس آج ہی ایک پٹیشن آئی کل سنیں گے، جب انتظامیہ غیر ذمہ دارانہ بیانات دے گی تو پھر کیا ہو گا، پاکستان کے کسی شہری سے متعلق کیا انتظامیہ ایسا کوئی بیان دے سکتی ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں 2 سابق وزرائے اعظم قتل ہو چکے، ایک وزیر اعظم پر قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے، آج میں نے 7 ضمانت کی درخواستیں دائر کی ہیں، عمران خان کی ضمانت کی درخواستیں 18 مارچ کو انسداد دہشت گردی عدالت چلی گئیں تھیں، ہمیں جوڈیشل کمپلیکس داخلے کی اجازت نہیں ملی، درخواست گزار سے سیکیورٹی واپس لی گئی ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیراعظم کو ایک خصوصی سیکیورٹی پروٹوکول دیا جاتا ہے، اس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ہمیں کوئی خصوصی سیکیورٹی نہیں دی جارہی، پنجاب حکومت نے سارے ٹی او آرز اڑا کر زمان پارک پر ریڈ مارا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ سابق وزیراعظم جب کہیں جاتے ہیں تو کیا خصوصی سیکیورٹی دی جاتی ہے؟ اس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ عمران خان کے پاس جو سیکیورٹی تھی وہ واپس لے لی گئی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سیکیورٹی وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت نے واپس لے لی؟ اس پر کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ وزیر داخلہ کے گزشتہ روز کا بیان آپ کے سامنے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار سابق وزیر اعظم پاکستان رہے ہیں، خصوصی سیکیورٹی ان کا حق ہے۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ بحیثیت وزیر اعظم ان کو کیا سیکیورٹی دی جاتی ہے وہ بتائیں؟

اس دوران فواد چوہدری نے کہا کہ ’انہوں نے دس، دس سال کے بچوں کو گرفتار کرلیا ہے۔

اس پر کمرہ عدالت میں فواد چوہدری اور ایڈووکیٹ جنرل کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ فواد صاحب آپ سیاسی باتیں کر رہے ہیں، درخواست گزار کسی ایک کیس میں بھی شامل تفتیش نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ حکومت کے نمائندے ہیں مگر آپ لا افسر ہے، آپ نے ایک غلط کام کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم سے سیکیورٹی واپس لے لی، اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ مجھے اس حوالے سے کنفرم نہیں، میں پتا کرتا ہوں۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ہمارا کیس فی الحال یہیں رکھا جائے، ہم یہاں پیش ہوتے رہیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم دیکھ لیتے ہیں، حکومت کو بھی سیکیورٹی کے حوالے سے نوٹس کرتے ہیں، ہم آپ کو عبوری ضمانت فراہم کر دیتے ہیں، تاریخ کا تعین بھی کرلیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’حتمی طور پر آپ کو ضمانت کے لیے انسداد دہشت گردی عدالت ہی جانا پڑے گا، سیکیورٹی کا مسئلہ حل ہونے تک آپ کا کیس یہاں سنیں گے۔

دریں اثنا عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کی 7 مقدمات میں عبوری ضمانت کی درخواست منظور کرلی۔ عمران خان کی عبوری ضمانت 6 اپریل تک منظور کی گئی ہے۔

علاوہ ازیں عدالت نے سابق وزیراعظم کی سیکیورٹی واپس لینے پر وفاق سے جواب طلب کرلیا۔

عمران خان کی صحافیوں سے غیررسمی گفتگو

قبل ازیں درخواست پر سماعت کے لیے عمران خان کو بلٹ پروف جیکٹ کی اوٹ میں کمرہ عدالت پہنچایا گیا، صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران ایک صحافی نے سوال کیا کہ ’خان صاحب ملک میں فیصلے کون کر رہا ہے؟‘، جواب میں عمران خان نے کہا کہ ’یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب سب کو معلوم ہے‘۔

صحافی نے سوال کیا کہ ’رانا ثنا اللہ نے کہا ہے یا یہ رہیں گے یا ہم رہیں گے؟‘

عمران خان نے جواب دیا کہ ’خواہش تو یہی ہے دونوں رہیں لیکن اگر وہ کہہ رہے ہیں تو میں یہی کہوں گا وہ نہیں رہیں گے، اگر آج نامعلوم پیچھے ہوں تو یہ حکومت ختم ہو جائے، سیاستدانوں کے لیے مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں، جو امپائر کو ساتھ ملا کر کھیلتے رہے ہوں ان کو لیول پلیئنگ فیلڈ کا کیا پتا‘۔

عبوری ضمانتوں کی درخواستوں پر اعتراض

قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے عمران خان کی عبوری ضمانتوں کی درخواستوں پر 2 اعتراضات عائد کردیے تھے۔

رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراض عائد کیا گیا کہ ’عمران خان نے بائیو میٹرک نہیں کرایا اور ٹرائل کورٹ سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیسے درخواست دائر ہو سکتی ہے‘۔

تاہم بعد ازاں عمران خان کی ضمانت کی درخواستیں اعتراضات کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کردی گئیں۔

قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے لیے عمران خان اپنی قانونی ٹیم کے ہمراہ زمان پارک سے قافلے کی صورت میں اسلام آباد پہنچے تھے۔

عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ آج عمران خان پر درج 7 مقدمات میں ہم ان کی عبوری ضمانت کروایں گے، پچھلی پیشی پر جوڈیشل کمپلیکس میں ہونے والی صورت حال کے بر عکس ہم سیدھا ہائی کورٹ میں جارہے ہیں۔

اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ، خلاف ورزی پر گرفتاریوں کا فیصلہ

دریں اثنا اسلام آباد انتظامیہ نے دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ کر دیا ہے اور اس حکم کی خلاف ورزی کی صورت میں گرفتاریوں کا انتباہ دیا ہے۔

اسلام آباد پولیس نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ العمل ہے، خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں گی۔

ٹوئٹ میں کہا گیا کہ عدالتی احکامات کی روشنی میں صرف متعلقہ افراد کو عدالتی احاطے میں داخلے کی اجازت ہوگی۔

ٹوئٹ میں مزید کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے جانب سے رابطہ کاری عامر کیانی کے سپرد کی گئی ہے، علاوہ ازیں سیف سٹی ہیڈکوارٹرز میں ایک مرکزی کنٹرول روم بھی قائم کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کے 13 کارکن گرفتار کرلیے، پولیس

سماعت کے آغاز سے قبل پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کے فوٹوگرافر نعمان جی سمیت 3 دیگر شہریوں کو پولیس نے اسلام آباد ہائی کورٹ جاتے وقت حراست میں لے لیا۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’یہ 4 غیر مسلح شہری، جن میں سے ایک ہمارا آفیشل فوٹوگرافر ہے، عمران خان کی گاڑی کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ جارہے تھے، انہیں بغیر کسی جرم کے گرفتار کرلیا گیا ہے اور غالباً رمنا تھانے لے جایا گیا ہے، پھر ہم اسلام آباد پولیس پر تنقید کریں تو ہمیں ٹارگٹ کیا جاتا ہے‘۔

علاوہ ازیں پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پی ٹی آئی کارکنان کو شہری لباس میں ملبوس افراد کے ہاتھوں حراست میں لیے جانے کی ویڈیوز بھی شیئر کی گئیں۔

پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا کہ ’یہ شرمناک ہے کہ آج اسلام آباد میں پی ٹی آئی کارکنان کو کس طرح گرفتار کیا جا رہا ہے، وہ لوگ جنہوں نے وردی بھی نہیں پہنی ہوئی وہ کیوں ہمارے لوگوں کو قیدیوں والی وین میں ڈال رہے ہیں‘۔

دوسری جانب ایس ایس پی حسن وٹو نے بتایا کہ پولیس نے اب تک پی ٹی آئی کے 13 کارکنان کو گرفتار کیا ہے۔

اسلام آباد میں ریلیوں، عوامی اجتماعات کی کوریج پر پابندی عائد

دریں اثنا پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے آج اسلام آباد میں تمام ریلیوں اور عوامی اجتماعات کی لائیو اور ریکارڈڈ کوریج پر پابندی عائد کردی۔

پیمرا کی جانب سے ایک روز کے لیے پابندی کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق احتجاجی ریلی یا عوامی اجتماع کی لائیو یا ریکارڈڈ کوریج نہیں کی جاسکتی، مذکورہ پابندی امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر عائد کی گئی ہے۔

پیمرا کے نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 2018 کے احکامات کی روشنی میں کوریج پر پابندی پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 27 کے تحت لگائی گئی ہے۔

دہشتگردی مقدمات، عمران خان سمیت 17 رہنما طلب

ادھر محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے دہشت گردی کے مقدمات میں عمران خان سمیت 17 رہنماؤں کو طلب کرلیا۔

محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے پی ٹی آئی کی قیادت کو دہشت گردی کے 2 مقدمات میں شامل تفتیش ہونے کے لیے حکم نامہ بھجوایا گیا ہے۔

پارٹی چیئرمین عمران خان کے علاوہ محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے مراد سعید، عامر کیانی، امجد نیازی، راجا خرم نواز، علی امین گنڈا پور، شبلی فراز، اسد عمر، ڈاکٹر شہزاد وسیم، فرخ حبیب، عمر ایوب، حماد اظہر، اسد قیصر، حسان خان نیازی اور عمران خان کے سی ایس او کرنل ریٹائرڈ عاصم کو تھانہ سی ٹی ڈی میں درج مقدمہ میں بلایا گیا ہے۔

جبکہ عمران خان، اسد عمر، علی نواز اعوان اور عامر مغل جمشید خان سمیت 10 افراد کو تھانہ گولڑہ میں درج مقدمہ میں بلایا گیا ہے۔

محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ تمام افراد شاملِ تفتیش ہو کر اپنا مؤقف پیش کریں، بصورتِ دیگر قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

عمران خان کےخلاف مقدمات کی تفصیلات کی فراہمی سے متعلق کیس

دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کے خلاف مقدمات کی تفصیلات کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی، پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے ان کے وکیل فیصل فرید چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر فیصل چوہدری نے کہا کہ آج ہمارے لیے پارکنگ بھی بند کردی گئی ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہی کے مؤکل نے آج ہائی کورٹ ضمانت کے لیے آنا ہے، میں خود وہ کنٹینرز پاس کرکے عدالت پہنچ آیا ہوں۔

فیصل چوہدری نے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے گزشتہ روز انٹرویو کا حوالہ دیا، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ باقی چیزوں کو ابھی چھوڑیں، آپ کی درخواست پر نوٹسز جاری کیے تھے۔

عدالت نے ریاستی وکیل زوہیب گوندل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مقدمات کے بارے میں استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی اسلام آباد اور ایف آئی اے ہمارے دائر اختیار میں ہے، اسی وجہ سے ہم نے نوٹس لیا، اسلام آباد کی حد تک ہم نے مقدمات بارے تفصیلات فراہمی کی ہدایت کی تھی۔

وکیل زوہیب گوندل نے جواب دیا کہ ایک دو دن تک مقدمات کی تفصیلات عدالت کو فراہم کریں گے۔

فیصل چوہدری نے کہا کہ وزیر داخلہ نے ٹی وی انٹرویو میں میرے مؤکل کو براہ راست دھمکی تھی، 143 مقدمات درج کیے گئے اور مزید بھی درج ہونے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں خالی آرڈر نہیں دے سکتا، ان کو تفصیلات جمع کرنے دیں، آپ کی اپنے استدعا پر اگر میں جاؤں تو مسئلہ ہوگا، آپ نے کہا کہ ہمیں غیر قانونی مقدمات میں گرفتار نہ کیا جائے، کیا میں آرڈر کردوں کہ غیر قانونی نہیں بلکہ قانونی طور پر گرفتار کریں؟

بعد ازاں ڈپٹی اٹارنی جنرل کی ہدایات لینے کی استدعا منظور کرتے ہوئے عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ عمران خان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت تھانہ رمنا، سی ٹی ڈی اور گولڑہ میں مقدمات درج ہیں۔

27 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کی 5 مقدمات میں حفاظتی ضمانت میں 27 مارچ (آج) تک توسیع کردی تھی۔

قبل ازیں 21 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف اسلام آباد میں تھانہ سی ٹی ڈی اور تھانہ گولڑہ میں درج 2 مقدمات میں 27 مارچ (آج ) تک توسیع کردی تھی۔

خیال رہے کہ محکمہ انسداد دہشت گردی اور گولڑہ پولیس اسٹیشن میں درج 2 ایف آئی آرز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں نے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد کے باہر پولیس پر حملہ کیا اور بے امنی پیدا کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی سربراہ و دیگر رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 148، 149، 186، 353، 380، 395، 427، 435، 440 اور 506 شامل کی گئی تھیں۔

واضح رہے کہ 28 فروری کو عمران خان کے خلاف درج مختلف مقدمات کی اسلام آباد کی مقامی عدالتوں میں سماعت ہوئی تھی جہاں دوران سماعت وہ پیش ہوئے تھے۔

عمران خان اپنے پارٹی کارکنان اور رہنماؤں کے ہمراہ قافلے کی شکل میں اسلام آباد کی مختلف عدالتوں میں پیشی کے لیے لاہور سے وفاقی دارالحکومت پہنچے تھے۔

جوڈیشل کمپلیکس میں موجود عدالتوں میں ان کی پیشی کے موقع پر شدید بے نظمی دیکھنے میں آئی اور بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کارکنان زبردستی احاطہ عدالت میں داخل ہونے میں کامیاب رہے تھے، اس سلسلے میں اسلام آباد پولیس نے کارِ سرکار میں مداخلت پر 25 افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔

بعدازاں عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس اور اسلام آباد ہائی کورٹ آمد پر ہنگامہ آرائی کے خلاف یکم مارچ کو اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں 2 علیحدہ علیحدہ مقدمات درج کرلیے گئے تھے۔

دونوں مقدمات میں سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے 21 رہنماؤں اور 250 کارکنان کو بھی نامزد کیا گیا تھا، ان مقدمات میں دہشت گردی ،کار سرکار میں مداخلت اور سرکاری اہلکاروں سے مزاحمت کی دفعات شامل کی گئی تھیں۔

رانا ثنااللہ نے مجھے دھمکیاں دی، عمران خان نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی

دوسری جانب سابق وزیر اعظم عمران خان نے پی ڈی ایم حکومت اور وفاقی وزیر داخلہ کیخلاف درخواست دائر کردی، دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ موجودہ وفاقی وزیر داخلہ نے ایک انٹرویو کے دوران درخواست گزار کو دھمکیاں دیں، وزیر داخلہ کی جانب سے دھمکیاں موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف، نواز شریف اور مریم نواز کی ایما پر دی گئیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے درخواست گزار کیخلاف انتقامی کارروائیاں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، وزیر داخلہ کی جانب سے سنگین دھمکیوں کے باعث درخواست گزار کی جان کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت فریقین کو درخواست گزار کیخلاف کسی قسم کی کارروائی سے روکنے کا حکم دے، عدالت فریقین کو درخواست گزار کو گرفتار کرنے یا اس کی جان لینے سے روکنے کے احکامات جاری کرے۔

واضح رہے کہ دو روز قبل پی این این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ میرے خیال میں عمران خان جمہوریت اور جمہوری روایات پر یقین نہیں رکھتے، وہ اس ملک میں پرامن سیاسی ماحول پر یقین نہیں رکھتے اور سیاست کو دشمنی میں بدل دیا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں جبکہ ہم پہلے اسے اپنا سیاسی حریف سمجھتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ صورتحال اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ ہم بھی سوچتے ہیں کہ وہ ہمارے دشمن ہیں۔

وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ جمہوری روایات، بروقت انتخابات اور صحیح و غلط جمہوریت اور سیاست کا حصہ ہیں لیکن دشمنی میں نہیں، عمران خان کہتا ہے کہ ہم اسے قتل کرنا چاہتے ہیں تو اگر وہ کہتا ہے کہ ہم اسے قتل کرنا چاہتے ہیں تو اگر ایسا ہے تو وہ ہمیں بھی قتل کرنا چاہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یا تو انہیں یا ہمیں قتل کیا جائے گا، اب وہ ملک کی سیاست کو ایک ایسے موڑ پر لے گئے ہیں جہاں دو میں سے صرف ایک ہی رہ سکتا ہے۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ اگر ہمارے وجود کی نفی ہو گی تو میں کسی بھی حد تک جاؤں گا، انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں یہ سوچنا غیر متعلقہ ہو جائے گا کہ کیا کیا جا سکتا ہے یا کیا نہیں، کوئی چیز جمہوری ہے یا نہیں، آیا کوئی چیز اصولی ہے یا نہیں۔

جب پروگرام کے میزبان نے ان سے کہا کہ اس طرح کے بیان کے نتیجے میں انتشار پھیل سکتا ہے تو وزیر داخلہ نے کہا کہ انتشار پہلے ہی موجود ہے، انارکی کے علاوہ اور کیا ہے؟۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس صورتحال سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہے اور کیا عمران کی گرفتاری سے دشمنی میں کمی ہو سکتی ہے تو وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ معاملہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں، یا تو ان کی سیاست ختم ہو گی یا ہماری۔

تبصرے (0) بند ہیں