لاہور ہائیکورٹ: 1990 سے2001 تک کا توشہ خانہ ریکارڈ 7 روز میں پبلک کرنے کا حکم

لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس عاصم حفیظ نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا — فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ
لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس عاصم حفیظ نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا — فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائی کورٹ نے شہری کی درخواست پر حکومت کو 1990 سے 2001 تک توشہ خانہ کا ریکارڈ 7 روز میں پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔

اس سے قبل فروری میں حکومت نے کابینہ کا ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کے فیصلے کا عدالت کو بتایا تھا جس کے بعد 2002 سے 2022 کے دوران توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کردیا گیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ نے گزشتہ ہفتے شہری منیر احمد کی درخواست پر سماعت کی اور توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کرنے کا حکم دیا تھا۔

آج لاہور ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کا 1990 سے 2001 تک کا ریکارڈ پبلک کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ تحائف کی ملکیت حکومت کے پاس ہوتی ہے۔

جسٹس عاصم حفیظ نے اظہر صدیق ایڈوکیٹ کی درخواست پر گیارہ صفحات پر مشتمل تفصیلی تحریری فیصلے میں کہا کہ یہ تب تک حکومت کے پاس ہوتے ہیں جب تک انہیں لینے کا طریقہ نہ اختیار کیا جائے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ تحائف کا چھپانا یا اس کی قیمت ادا نہ کرنا غلطی ہے جو خرابی کی رغبت دیتی ہے، توقع کی جاتی ہے کہ جنہوں نے تحائف لیے وہ رضاکارانہ طور پر اسے ڈیکلئر کریں، ایسا نہ کرنے والوں کے خلاف فوجداری ایکشن ہو سکتا ہے، کوئی قانون سے بالا تر نہیں اور نہ کسی کو اپنے فائدے کے لیے ریاست کو نقصان پہنچانے کی اجازت ہے۔

فیصلے میں کہا گیاہے کہ تحائف دینے والے کی شناخت کوئی اسٹیٹ سیکرٹ نہیں اور نہ ہی مقدس معلومات ہیں، اس کےلیے استثنی مانگنا نوآبادیاتی ذہنیت کے علاوہ کچھ نہیں۔

لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں حکم دیا کہ وفاقی حکومت 1990 سے مارچ 2023 تک تحائف دینے والوں کے نام بھی سات دن میں پبلک کرے، صرف توشہ خانہ کی معلومات عوام کے ساتھ شئیر کرنے سے اس کے بین الاقوامی تعلقات خراب نہیں ہوں گے۔

عدالت عالیہ نے کہا کہ حکومت عدالتی حکم کی نقول ملنے کے سات روز کے اندر توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کرے، عدالت نے حکم دیا کہ جس دوست ملک نے تحائف دیے ہیں وہ بھی بتائے جائیں اور کوئی چیز چھپائی نہیں جا سکتی، سارا ریکارڈ پبلک کیا جائے۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے عدالت کی جانب سے تحائف کے ذرائع بتانے کی ہدایت پر اعتراض کیا تھا اور وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ ہم اس کے خلاف اپیل فائل کریں گے۔

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا تھا کہ اپیل کرنا آپ کا حق ہے لیکن قیمت کی ادائیگی کے بغیر کوئی تحفہ نہیں رکھ سکتا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ نے شہری منیر احمد کی جانب سے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک کرنے کے لیے دسمبر 2022 میں دائر درخواست پر 14 مارچ کو حکم دیا تھا کہ 1990 سے 2001 تک ریکارڈ پیش کردیں۔

جسٹس عاصم حفیظ نے تحریری حکم نامے میں کہا تھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پیش ہو کر بتایا کہ 2002 سے اب تک کا ریکارڈ پبلک کردیا ہے، درخواست گزار کے مطابق پیش کیا گیا ریکارڈ نامکمل ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ریکارڈ پبلک کرنے کا مصدقہ ریکارڈ عدالت کے روبرو پیش کریں۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ سیکشن افسر نے بتایا کہ 1990 سے 2001 کا ریکارڈ جزوی طور پر موجود ہے، سیکشن افسر کے مطابق اس ریکارڈ کی تصدیق نہیں کی جاسکتی، متعلقہ ریکارڈ کی جانچ اوپن کورٹ میں کی جائے گی، 21 مارچ کو ریکارڈ عدالت کے روبرو پیش کیا جائے۔

اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے توشہ خانہ کا 466 صفحات پر مشتمل 2002 سے 2023 تک کا ریکارڈ پبلک کرنے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کے تحائف سے متعلق پالیسی بنادی ہے۔

وفاقی حکومت نے 21 فروری کو کیس کی سماعت کے دوران توشہ خانہ کا سیل شدہ ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا تھا جبکہ 12 مارچ کو2002 سے 2022 کے دوران توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والے سرکاری عہدوں کے حامل افراد کا ریکارڈ پبلک کردیا تھا۔

دستاویزات کے مطابق چند تحائف کے سوا بیشتر تحائف سرکاری عہدیداروں نے مفت حاصل کیے، آصف زرداری اور نواز شریف نے اپنے ادوار میں ایک ایک بلٹ پروف گاڑی حاصل کی اور توشہ خانہ کو کچھ رقم ادا کرنے کے بعد ان گاڑیوں کو اپنے پاس رکھ لیا۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ نے 5 قیمتی گھڑیاں، زیورات اور دیگر اشیا حاصل کیں، پرویز مشرف اور شوکت عزیز نے ایک پیسہ بھی ادا کیے بغیر سیکڑوں غیر ملکی تحائف اپنے پاس رکھے۔

غیر ملکی معززین سے ملنے والے تحائف کے عوض ان عوامی عہدیداران، خصوصاً حکمرانوں نے غیر ملکی مندوبین کو کروڑوں روپے کے تحائف دیے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے توشہ خانہ کی تفصیلات کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردی گئی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں