مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا کر انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2023
پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’انتحابات کرانے کے لیے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے‘۔

پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی۔

پانچ رکنی بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل ہے۔

آج کی سماعت

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’توقع ہے آپ سے بہترین معاونت ملے گی‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’سیاسی جماعتوں کو فریق بنانے کے لیے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا، جمہوریت کے لیے قانون کی حکمرانی لازمی ہے، قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے‘۔

اس دوران پیپلزپارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’ملک میں اس وقت انارکی اور فاشزم ہے‘۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے دو ججز نے پہلے فیصلہ دیا‘، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس وقت سوال فیصلے کا نہیں الیکشن کمیشن کے اختیار کا ہے‘۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالتی فیصلہ اگر 3-4 کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے، موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عملدرآمد کی ہے‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’بینچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں، آپ کا انحصار تکنیکی نکتے پر ہے، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا، اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے، جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں‘۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں، سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے، اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے‘۔

یکم مارچ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے، یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، جسٹس جمال مندوخیل

اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے، عدالتی فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، یہ بتائیں کہ کیا 90 روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے؟‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں، لوگ آٹے کے لیے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں، تحریک انصاف اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملکی حالات کو بہتر کیا جائے، تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے‘۔

پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ’ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے‘، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کی اعلیٰ قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے، پی ٹی آئی کو پہل کرنی ہوگی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے‘۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ’ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں، آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں‘، اس پر علی ظفر نے کہا کہ ’انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو بحران مزید بڑھے گا‘۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جاسکتا ہے‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن کے پاس 90 دن کے اندر شیڈول ایڈجسٹ کرنے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن بظاہر 90 دن سے تاخیر نہیں کرسکتا‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’اب 90 دن بھی گزر گئے ہیں، آئین کی ہمارے ملک میں کوئی پرواہ نہیں کرتا، الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریح کون بڑھائے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے‘، اس پر پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ منتحب نمائندے ہوتے ہیں‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے‘، اس پر علی ظفر نے کہا کہ ’تحریک عدم اعتماد آجائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا پارلیمنٹ کو اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے؟‘، اس پر علی ظفر نے کہا کہ ’وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کرسکتی ہے‘۔

کیا صدر مملکت کی تاریخ کو تبدیل کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، جسٹس اعجاز

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’عدالتی فیصلے پر عمل ہو چکا ہے، صدر مملکت کی تاریخ پر الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا، سوال یہ ہے کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدر مملکت کی تاریخ کو تبدیل کر دے، کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کر سکتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن ایسا کر سکتا ہے؟‘، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے پنجاب کی حد تک عدالتی فیصلے پر عمل کیا‘۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کے تعین کا اختیار ہے، کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ کو تبدیل کر سکتا ہے‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتحابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا، 2008 میں انتحابات تاخیر کا شکار ہوئے تھے‘۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے آئین کے 2 آرٹیکلز کا سہارا لیا ہے‘، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا کہ آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں، اگر الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا؟‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کے لیے صدر سے رجوع کرسکتا تھا، تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں، وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی کمیشن رجوع کرسکتا ہے‘۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’آرٹیکل 220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے مؤقف لے کر فیصلہ لکھ دیا، عدالت کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا، انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہوگا، ہر ادارہ آئین اور قانون پر عمل کرنے کا پابند ہے، الیکشن کمیشن کے مطابق آرٹیکل 254 الیکشن منسوخ کرنے کا اختیار دیتا ہے‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی، کیا 90 دن بعد کی تاریخ درست تھی؟‘، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہو سکتا‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’صدر نے بھی الیکشن کی تاریخ 90 روز کے بعد کی دی، آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے‘۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا، ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ایک ہی دن انتخابات کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن ازخود ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا، الیکشن کمیشن چھ ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو 2 سال بھی کر سکے گا‘۔

انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے، یہاں آئین خاموش ہے، جسٹس جمال

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے۔ یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے؟‘

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا‘۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’جس بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوئے اس طرح تو کبھی الیکشن نہیں ہو سکتے‘۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگران حکومت فنڈز کیسے دے گی‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ’جو مسائل آج ہیں وہ 8 اکتوبر کو کیسے نہیں ہوں گے؟‘

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے کہا فنڈز فراہم نہیں کیے گئے، الیکشن کمیشن نے کبھی فنڈز دینے کی ہدایت نہیں کی تھی‘، اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’اخبار میں وزیر اعظم کا بیان پڑھا تھا، وفاقی حکومت کہتی ہے فروری تک 500 ارب ٹیکس جمع کیا، حیرت ہے کہ 500 ارب میں سے 20 ارب نہیں دیے گئے‘۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کے حکم نامے کے مطابق سیکریٹری خزانہ نے کہا فنڈز دینا مشکل ہوگا، وزارت خزانہ نے مشکل کہا تھا انکار نہیں کیا تھا‘۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’سیکریٹری خزانہ نے تو کہا الیکشن کے لیے فنڈز نہ ابھی ہیں نہ آگے ہوں گے، اس کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے ہی نہیں، حکومت کا کوئی سیکریٹری ایسا بیان کیسے دے سکتا ہے، ٹیکس جمع ہو کر فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں جاتا ہے‘۔

چیف جسٹس کی ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’انتحابات کرانے کے لیے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے‘۔

پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز کے اخراجات پارلیمنٹ کی منظوری سے خرچ ہوتے ہیں‘۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’اگر اسمبلی تحلیل ہوجائے تو کیا فنڈز جاری ہی نہیں ہو سکیں گے؟‘

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے، نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے، سیکریٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’سیکریٹری خزانہ منظور کردہ بجٹ سے ہٹ کر فنڈز کیسے دے سکتا ہے‘۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’یہ تکنیکی نقطہ ہے کے پیسے کہاں سے آنے ہیں‘، اس پر چیف جسٹس نے انتحابات کے لیے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے، حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، معاشی بحران کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا ہوتی ہے، 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے، خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے، پنجاب میں اب تک صرف 61 آپریشن ہوئے، سندھ میں 367 جبکہ خیبرپختونخوا میں 1245 آپریشن ہوئے، پنجاب کی صورتحال خیبرپختونخوا سے مختلف ہے، ترکیہ میں زلزلہ متاثرہ علاقوں کے علاوہ ہر جگہ الیکشن ہو رہے ہیں‘۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن ایکٹ بھی کہتا ہے کہ جہاں مسئلہ ہو وہاں پولنگ منسوخ ہو سکتی ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ پورا الیکشن ملتوی کر دیا جائے‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں، کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے؟‘

جواب میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’ایبسلوٹلی ناٹ‘، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ایبسلوٹلی ناٹ تو آپ نے کسی اور کو کہا تھا‘، چیف جسٹس کے ان ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقے گونج اٹھے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا بجٹ میں انتحابات کے لیے فنڈز مختص ہیں، اگر فنڈز نہیں ہیں تو فنڈز لینے کا طریقہ کار آئین میں درج ہے‘۔

’الیکشن کمیشن نے وہ اختیار استعمال کیا جو اس کا تھا ہی نہیں‘

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’گزشتہ سال چیف الیکشن کمشنر نے بتایا تھا کہ نومبر 2022 میں الیکشن کے لیے تیار ہیں، اب الیکشن کمیشن اچانک کہتا ہے فنڈز نہیں ہیں، فنڈز نہ ہونا الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی بہانہ نہیں، الیکشن کمیشن کے مطابق انتحابی عملہ موجود ہے، سیکیورٹی فراہم کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، سیکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا ہے، پولیس نفری کم ہونے کا بہانہ تو ہمیشہ رہے گا‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’میرے سابق چیف جسٹس کو قتل کردیا گیا، کیا یہ ٹھوس وجہ نہیں ہے‘، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’یہ ایسی بھی وجہ نہیں ہے الیکشن نہ کروائے جائیں، کیا نگران حکومت نفری دینے سے انکار کرسکتی ہے‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن نے وہ اختیار استعمال کیا جو اس کا تھا ہی نہیں‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن ہائی کورٹ سے بھی رجوع کرسکتا تھا‘، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کا حکم تھا تو معاملہ یہیں آنا تھا‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’ہائی کورٹ جانے سے آپ کو کیا مسئلہ ہے؟‘، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’وقت کی قلت ہے، مزید چارہ جوئی میں وقت ضائع نہیں کرسکتے‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’آئین واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہائی کورٹ نے کروانا ہے‘، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’معاملہ 2 صوبوں کا ہے، ایک ہائی کورٹ عمل نہیں کروا سکتی‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کے احکامات کو تبدیل نہیں کر سکتی‘، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’عوامی مفاد کا معاملہ ہے، مناسب ہوگا سپریم کورٹ خود کیس سنے‘۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن کمیشن انتظامی اداروں کے خلاف خود کارروائی کر سکتا ہے؟‘، اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن اداروں کو ہدایات جاری کر سکتا ہے، ادارے عملدرآمد نہ کریں تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن نے عدالت کو کہا تھا وہ تاریخ مقرر نہیں کر سکتے‘۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ ’الیکشن کمیشن نے بعد میں 8 اکتوبر کی تاریخ غلط کیسے دی؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن اکتوبر میں پھر کہہ دے کہ حالات ٹھیک نہیں تو کیا الیکشن جنوری تک جا سکتے ہیں، عدالت فیصلہ کرے تو آئی ایم ایف اور دوست ممالک خوش ہوں گے، قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں، غیر آئینی اقدام کے خلاف عدالت ہی آخری دیوار ہے، آئین کا پہلا اصول اسلام، دوسرا جمہوریت ہے، جمہوریت انتحابات سے ہی ہوتی ہے‘۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’سیکشن 58 کا اختیار الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے ہے‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’اگر الیکشن کمیشن اپنا حکم واپس لے کر کہے کوئی مدد نہیں کر رہا تو کیا ہوگا؟ اپنی مشکلات حل کروانے کے لیے الیکشن کمیشن کو عدالت ہی آنا ہوگا‘۔

بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے، دریں اثنا عدالت نے سماعت میں سوا 2 بجے تک وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’صرف پنجاب کی حد تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا گیا ہے، گورنر کے پی کا معاملہ سپریم کورٹ میں الگ سے چیلنچ ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کا دفاع اس کے وکلا کریں گے، حکومت سے فنڈز اور سیکورٹی کا مطالبہ کیا گیا تھا، پولنگ اسٹیشنز پر فوج تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا تھا، فنڈز کے حوالے سے کل سیکریٹری خزانہ سے معلومات لے کر تفصیل دوں گا، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 170 ارب حکومت نے وصول کرنے تھے، اضافی وصولی کے لیے ضمنی بجٹ دیا گیا، جو معلومات ابھی دے رہا ہوں وہ میری سمجھ کے مطابق ہیں‘۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’کیا مزید اقدامات کر کے 20 ارب اضافی نہیں لیے جا سکتے؟، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اضافی ٹیکس لگانے سے عوام کو مزید مشکلات ہوں گی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے تخمینہ 170 ارب سے زیادہ کا ہی لگایا ہوگا۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ’30 جون تک 170 ارب روپے وصول کرنے کا ہدف ہے، آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ شرح سود میں اضافہ کیا جائے، شرح سود میں اضافے سے مقامی قرضوں میں اضافہ ہوا‘۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’کیا 20 ارب روپے جمع کرنا حکومت کے لیے مشکل کام ہے؟ کیا عام انتحابات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ صوبوں کو اندرونی اور بیرون خطرات سے بچانا وفاق کی آئینی ذمہ داری ہے‘۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی غریب اور صوبے امیر ہوئے ہیں، معاشی صورتحال سے کل آگاہ کروں گا‘۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آپ نے کہا تھا الگ الگ الیکشن کروانے کے پیسے نہیں ہیں‘، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’سیکریٹری خزانہ نے الیکشن کمیشن کے بیان پر کہا تھا، انہوں نے ایسا کہا ہوگا‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’معاملہ ترجیحات کا ہے، لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے 10 ارب روپے نکل سکتے ہیں تو الیکشن کے لیے 20 ارب کیوں نہیں‘۔

اس پر کمرہ عدالت میں موجود پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ’ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی اراکین کو فنڈز دیے گئے ہیں‘۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کہ ’اراکین کو فنڈز دینا عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی ہے‘، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے ہدایت لے کر آگاہ کروں گا‘۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’الیکشن کے لیے فنڈز دینا صوبے کی ذمہ داری ہے یا وفاق کی؟‘

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’کیا ترقیاتی فنڈز کے اعلان کی وقت آئی ایم ایف کی شرائط نہیں تھیں؟‘ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ترقیاتی فنڈ والی بات شاید 5 ماہ پرانی ہے‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کے لیے فنڈز فراہم کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے‘۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’آئین کے تحت سپلمنٹری گرانٹ جاری کی جاسکتی ہے‘، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’مسئلہ آئینی اختیار کا نہیں وسائل کی کمی کا ہے، وزرات دفاع نے کہا سیکیورٹی حالات کی وجہ سے فوج فراہم نہیں کرسکتے‘۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’کیا گارنٹی ہے اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟‘ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’ہوسکتا ہے الیکشن کمیشن نے سوچا ہو تمام اسمبلیوں کی مدت اکتوبر میں مکمل ہوجائے گی‘۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’شہدا اسی دھرتی کے سپوت ہیں، اس سے زیادہ کوئی کیا کرسکتا ہے کہ اپنی جان کی قربانی دے، افواج کے خاندانوں کا حوصلہ ہے کہ اپنے بچوں کو مورچوں میں بھیجتے ہیں‘۔

دہشتگردی کا مسئلہ 90 کی دہائی سے ہے، کیا تب الیکشن نہیں ہوئے؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں، کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جاسکتا، دہشت گردی کا مسئلہ 90 کی دہائی سے ہے، کیا نوے کی دہائی میں الیکشن نہیں ہوئے، کئی سیاسی لیڈرز کی جانیں قربان ہوئی، پیپلز پارٹی کی سربراہ کی شہادت بڑا سانحہ تھا، ان تمام حالات کے باوجود انتحابات ہوتے رہے ہیں، دوسری جنگ عظیم میں بھی انتحابات ہوئے تھے‘۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’1988 میں انتحابات اگست میں ہونے تھے، جنرل ضیا کی وفات کے بعد الیکشن نومبر میں ہوئے‘۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’1988 میں الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کس نے کیا تھا‘، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’قائم مقام صدر نے الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کیا تھا، 1988 میں بھی فنڈز کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے سے خلا پُر کیا تھا‘۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’کیا ہم سمجھیں قوم دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، کیا یہ پھر بنانا ریپبلک بن گیا ہے، آرمڈ فورسز حکومت کے ماتحت ہوتی ہیں، وہ کیسے کہہ سکتے ہیں ہم نہیں کر سکتے، ڈیوٹی کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ ڈیوٹی تو ڈیوٹی ہے، کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرنا چاہیے تھا‘۔

اٹارنی جنرل نے ریمارکس دہے کہ آئینی اختیار استعمال کرنے میں سوال ہو تو معاملہ عدالت ہی آتا ہے، اس سوال کا بہتر جواب الیکشن کمیشن کے وکیل دے سکتے ہیں، 2008 میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کی نئی تاریخ خود دی تھی، کسی جماعت نے الیکشن کی نئی تاریخ کو چیلنج نہیں کیا تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’محترمہ کی شہادت الیکشن ملتوی کرنے کی بڑی وجہ تھی‘، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اس وقت کی سیاسی قیادت نے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا‘۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’الیکشن کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں، کمیشن کو تیار رہنا چاہیے‘۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’چیف الیکشن کمشنر نے خود کہا تھا کہ 4 ماہ میں الیکشن کروا سکتے ہیں‘، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ملک کے اس وقت کے حالات اور اب کے حالات میں فرق ہے‘۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’حکومت چلانا الیکشن کمیشن کا کام نہیں‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن وہی وجہ بتا سکتا ہے جو اس کے حکم میں لکھی ہوئی ہے‘، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالت کو مردم شماری سے بھی آگاہ کروں گا، مردم شماری ابھی بھی جاری ہے‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’مردم شماری کے بعد 4 ماہ حلقہ بندی میں بھی لگتے ہیں‘، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’سرکاری عملہ مردم شماری میں مصروف ہے، مردم شماری کے بعد نشستوں کا تناسب بدل جاتا ہے‘۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’کیا مردم شماری کے دوران الیکشن نہیں ہو سکتے؟‘ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’جس مردم شماری کے نتائج شائع ہو چکے ہوں اس کی بنیاد پر ہی الیکشن ہوتے ہیں‘۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’اگر مردم شماری کے دوران قومی اسمبلی تحلیل ہو گئی تو کیا ہو گا، کیا نگران حکومت مردم شماری کے نتائج شائع کر سکتی ہے‘، اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’30 اپریل کو مردم شماری مکمل ہونی ہے‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’گزشتہ مردم شماری کے نتائج آنے میں کئی سال لگے تھے، آپ پر بھروسہ کیسے کریں کہ نتائج تاخیر سے شائع نہیں کریں گے‘، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے‘۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں، آئین کے تحت 90 دن میں الیکشن ہونا ہے، مشترکہ مفادات کونسل جو بھی کرے کیا الیکشن کی آئینی مدت آگے جا سکتی ہے، آئینی طور پر مشترکہ مفادات کونسل کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں‘۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’مردم شماری کا اثر پنجاب اور کے پی کے میں قومی اسمبلی کے الیکشن پر پڑے گا‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’صوبوں میں قومی اسمبلی کے الیکشن کا نئی حلقہ بندیوں پر کیا اثر پڑے گا‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’2017 سے ایک سیاسی جماعت مردم شماری پر اعتراض کر رہی ہے، عوام کی نمائندگی ہی شفافیت ہونی چاہیے، پہلی بار عدالت الیکشن ملتوی کرنے کی وجوہات کا جائزہ لے رہی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اصل صورتحال یہ ہے کہ اتنے لمبے عرصے کے لیے الیکشن ملتوی کیسے کیے جاسکتے ہیں، بےنظیر بھٹو کی شہادت پر الیکشن صرف 40 دن آگے ہوئے تھے، احتجاج کے باعث الیکشن کمیشن کے دفاتر نذر آتش کردیے گئے تھے، ملک بھر میں سانحہ پر احتجاج ہو رہے تھے، الیکشن کے لیے سیاسی پختگی کی ضرورت ہے، سیاسی میچورٹی پر بھی ہدایات لے کر آئیں‘۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ’سندھ میں ٹرین پر سفر کیا ہر جگہ سیلاب تھا، بلوچستان میں کئی جگہ ٹرین پیدل چلنے والوں کی رفتار سے چلتی ہے، کوئٹہ ابھی تک ریلوے لائن سے منسلک نہیں ہوسکا، جہاں نکل و حرکت مشکل ہو وہاں الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن کا فیصلہ جلدی بازی میں لکھا گیا، الیکشن کمیشن کے پاس کوئی اتھارٹی یا قانون نہیں تھا کہ الیکشن کی تاریخ میں توسیع کرے‘۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

پہلی سماعت

واضح رہے کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آج صبح ساڑھے 11 بجے تک جواب طلب کرکے سماعت ملتوی کردی تھی۔

سماعت کے بعد جاری ہونے والے تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات ملتوی کرنے کا آرڈر چیلنج کیا، پی ٹی آئی کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات ملتوی کرنے کا کوئی قانونی اور آئینی اختیار نہیں۔

تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ’بروقت عام انتخابات کا ایمانداری، منصفانہ اور قانون کے مطابق انعقاد جمہوریت کے لیے ضروری ہے، انتخابات میں تاخیر شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق متاثر کرنے کے مترادف ہے‘۔

سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ ’تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن درخواست میں اٹھائے گئے اہم قانونی اور حقائق پر مبنی سوالات کا جواب دے‘۔

حکومتی اتحاد کا درخواست میں فریق بننے کا فیصلہ

دریں اثنا انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے فریق بننے کا فیصلہ کرلیا۔

آج ہونے والی سماعت کے آغاز سے قبل تینوں اتحادی جماعتوں کی جانب سے کیس میں فریق بننے کی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے معاون خصوصی وزیراعظم عطا تارڑکے ہمراہ سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے وکلا آج عدالت کے روبرو پیش ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ بینچ سے ہماری استدعا ہوگی کہ ادارے کی عزت اور توقیر برقرار رکھنے کے لیے فل کورٹ بیٹھے اور الیکشن کمیشن کے اختیارات سمیت ان تمام معاملات کی تشریح کرے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہماری چیف جسٹس آف پاکستان اور عدالت سے یہ التجا ہوگی کہ ایسی آئینی تشریحات جن کا ملک اور عوام پر گہرا اثر پڑنا ہو اس میں فرد واحد کا فیصلہ نہیں ہونا چاہیے، اس کے لیے اجتماعی سوچ ہی کوئی راستہ نکال سکتی ہے اور اسے ہی صائب گردانا جاتا ہے، کل جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے بھی اسی جانب اشارہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ تقسیم اور ابہام کو دور کرنے اور ادارے کی عزت و تکریم برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ 2 جج صاحبان (جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی) جو رضاکارانہ طور پر اس معاملے سے علیحدہ ہوگئے تھے اور ان کے علاوہ جتنے جج صاحبان ہیں ان سمیت فل کورٹ کا 13 رکنی بینچ ہونا چاہیے جو اس معاملے کو سنے اور فیصلہ دے۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ 23 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے، آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور ’اسٹیٹک فورس‘ کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

فیصلے کی تفصیل کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس صورت حال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد، پولنگ کے عملے، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔

مزید کہا گیا تھا کہ وزارت خزانہ نے ’ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی‘ کا اظہار کیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے نشان دہی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ردعمل میں 23 مارچ کو پی ٹی آئی نے پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔

خیال رہے کہ رواں ماہ ہی الیکشن کمیشن نے 30 اپریل بروز اتوار پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات پر پولنگ کے لیے شیڈول جاری کر دیا تھا۔

3 مارچ کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات 30 اپریل بروز اتوار کرانے کی تجویز دی تھی۔

ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت نے تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ تاریخوں پر غور کرنے کے بعد کیا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز کی مقررہ مدت میں کرائے جائیں، تاہم عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو اجازت دی تھی کہ وہ پولنگ کی ایسی تاریخ تجویز کرے جو کہ کسی بھی عملی مشکل کی صورت میں 90 روز کی آخری تاریخ سے ’کم سے کم‘ تاخیر کا شکار ہو۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ صدر مملکت اور گورنرز الیکشن کمیشن پاکستان کی مشاورت سے بالترتیب پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تاریخیں طے کریں گے۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 اور 18 جنوری کو تحلیل ہوئیں، قانون کے تحت اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں۔

اس طرح 14 اپریل اور 17 اپریل پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کی آخری تاریخ تھی لیکن دونوں گورنرز نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ کی تاریخ مقرر کرنے کی تجویز ملنے کے بعد انتخابات کی تاریخیں طے کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشورے کا کہا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں