چین کے مخالفین پاکستان کے ساتھ اتحاد سے’گریز کر سکتے ہیں’، امریکی رپورٹ

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2023
چین اور پاکستان کے تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے رپورٹ جاری کی گئی ہے—فائل/فوٹو: ڈان
چین اور پاکستان کے تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے رپورٹ جاری کی گئی ہے—فائل/فوٹو: ڈان

پاکستان اور چین کے دوستی کے حوالے سے امریکا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کا آپس میں مضبوط اتحاد ہے لیکن بیجنگ کے مخالفین خاص کر امریکا ان سے مکمل اتحاد سے گریز کرسکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’چین-پاکستان ملٹری تعلقات کا مستقبل‘ کے عنوان سے رپورٹ میں چین-پاکستان تعلقات کی موجودہ صورت حال کو ’مضبوط اتحاد‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں یہ اتحاد بھرپور نہیں ہوسکتا، جس کی وجہ چین کے اپنے غلط اقدامات یا تعلقات معطل کرنے کے لیے مخالفین کے جارحانہ اقدامات ہوسکتے ہیں۔

رپورٹ امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) سے منسلک سمیر پی لالوانی نے تیار کی ہے، یہ ادارہ کانگریشنل مینڈیٹ کے ساتھ ایک وفاقی ادارہ ہے۔

مذکورہ رپورٹ میں نوٹ کیا گیا کہ 2015 میں تجزیہ کاروں نے مختلف وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان اور چین کے ملٹری تعلقات میں کمی آئے گی لیکن اسی برس صدر شی جن پنگ نے پاکستان کا دورہ کیا اور ایک فلیگ شپ منصوبہ سی پیک متعارف کروایا اور پاکستان کو 8 آبدوزیں فروخت کرنے کا اعلان کیا۔

سمیر پی لالوانی نے لکھا کہ اب ایک دہائی سے کم عرصے میں چین-پاکستان ملٹری تعلقات قسط وار شراکت سے مضبوط اتحاد کی طرف بڑھے ہیں۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان کے اکثر دفاعی آلات زیادہ تر چینی ہیں، جن میں خاص طور پر ہائر-اینڈ کمبیٹ اسٹرائیک اور پاور پروجیکشن کی صلاحتیں شامل ہیں اور پاکستان مسلسل امریکا اور یورپی پلیٹ فارمز سے الگ ہو رہا ہے۔

مزید بتایا گیا ہے کہ اس مضبوط تعلق کو ایک بھرپور تعلق بننا ہے، ایک اشارہ یہ ہوگا کہ بیجنگ کی جانب سے پاکستان کو مزید فوجی امداد دی جائے اور حساس نظام تک رسائی ملے جیسا کہ جے-20 فائٹر یا نیوکلیئر-پاور کی حامل آبدوز ہے۔

مصنف نے کہا کہ دوسرا نکتہ یہ ہوگا کہ ان کی فوجیں مشترکہ پیس ٹائم مشن اپنائیں تاکہ چین-بھارت یا پاکستان-بھارت سرحدی بحران کے دوران ایک دوسرے کی مدد کی جاسکے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ آخری اشارہ چین کی بحریہ میری ٹائم جاسوسی آلات گوادر میں نصب کرنے کا ہوسکتا ہے۔

امریکی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سویلین اور عسکری دونوں قیادت نے واضح طور پر انکار کیا ہے کہ پاکستان کسی طرح چین کے کیمپ میں نہیں جا رہا ہے اور اس دباؤ کو بھی کم کردیا ہے جس میں تعلقات کے لیے چین اور مغرب میں کسی کے انتخاب پر زور دیا جاتا تھا۔

رپورٹ کے مطابق چین اور پاکستان کے موجودہ سیاسی اور سیکیورٹی ماحول میں اختلاف کے کئی ایسے نکات ہیں جو ان کے ملٹری تعلقات کو موجودہ رفتار سے سست یا واپس کرسکتے ہیں۔

ان نکات کے حوالے سے بتایا گیا کہ سیاسی طور پر صوبے سنکیانگ میں مسلمان قبیلہ ایغور کے ساتھ چین کا رویہ پاکستان کے ساتھ عوامی اختلاف کی وجہ سے تعلقات پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ چین اس وقت پاکستان کی معیشت کو رقم دے رہا ہے یا پاکستان کی قیمت پر ایران میں معاشی اور ملٹری سرمایہ کاری میں سرگرم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں