انتخابات التوا کیس: جسٹس مندوخیل بھی بینچ سے علیحدہ، پیر کا سورج نوید لے کر طلوع ہوگا، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 31 مارچ 2023
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ میں بینچ کا رکن تھا لیکن میرے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی — فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ میں بینچ کا رکن تھا لیکن میرے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی — فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

پنجاب، خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔

جمعہ کو سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی معذرت کرلی جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

بینچ میں شمولیت سے معذرت کرتے ہوئے جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس امین الدین خان کے بینچ سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد حکم نامے کا انتظار تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے عدالتی حکم نامہ کل گھر پر موصول ہوا، حکم نامے پر میں نے الگ نوٹ لکھا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا مزید کہنا تھا کہ میں بینچ کا رکن تھا لیکن میرے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ میں بینچ میں ’مس فٹ‘ ہوں، سب ساتھی ججز آئین کے پابند ہیں۔

چیف جسٹس نے جسٹس جمال مندوخیل کو بہت بہت شکریہ کہتے ہوئے بات کرنے سے ٹوک دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ کی تشکیل سے متعلق جو بھی فیصلہ ہوگا کچھ دیر بعد عدالت میں بتا دیا جائے گا، کچھ دیر میں نئے بینچ کا فیصلہ ہوگا۔

تین رکنی بینچ کی جانب سے سماعت

بعد نماز جمعہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تو ‏چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے کیس کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔

دوران سماعت پاکستان بار کونسل کے چیرمین ایگزیکٹو کونسل حسن رضا پاشا عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو بعد میں سنیں گے، حسن رضا پاشا نے کہا کہ بار کا کسی کی حمایت سے کوئی تعلق نہیں، اگر فل کورٹ بینچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس کر لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں، ججز کے آپس میں اچھے تعلقات ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کل اور آج دو ججز نے سماعت سے معذرت کی، باہمی اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اور بعد میں بھی۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ نکات پر ہماری گفتگو ضروری ہے، سیاسی معاملات سامنے آئے جس پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تیل ڈالا گیا لیکن عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کر رہے ہیں، کچھ دوسرے ججز پر تنقید کر رہے ہیں، ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔

چیف جسٹس نے حسن رضا پاشا سے کہا کہ اس معاملے پر مجھے چیمبر میں ملیں، آج پہلی بار آپ عدالت آئے ہیں، باتوں سے نہیں عمل سے خود کو ثابت کریں، چیمبر میں آئیں آپ کا بہت احترام ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کے صدر مجھ سے رابطے میں رہے ہیں، معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی، میڈیا والے بھی بعض اوقات غلط بات کردیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان جو نکتہ اٹھانا چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے کچھ مقدمات میں حالات کی پیروی کے لیے فریقین کو ہدایت کی، عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے درجہ حرارت کم کریں، ملک میں ہر طرف درجہ حرارت کم کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درجہ حرارت کم کرنے کے لیے آپ نے کیا کیا، وقت کے ساتھ ہی درجہ حرارت کم ہو سکتا ہے، عدالت نے ہمیشہ آئین کو ہی فوقیت دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ججز کو دفاتر سے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا، معجزہ ہوا کہ ججز واپس دفاتر میں آگئے، 90 کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آسکے، آئین اور جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، اسمبلی کی مدت ہوتی ہے، ایوان کے سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ 90 دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے، صدر نے 90 دن کی مدت کے 15 دن بعد کی تاریخ دی، صدر کو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے، صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی۔

حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت کے سامنے مسئلہ 8 اکتوبر کی تاریخ کا ہے، عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی، عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں، ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست بھی مکمل ہو رہی ہے اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے، اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردار ادا کریں گے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ہر فریق کے ہر نکتے کا فیصلے میں ذکر کریں گے، 20 ارب کے اخراجات پر پہلے عدالت کو بتائیں، اخراجات کم کرنے کی تجویز دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ دوسرا مسئلہ سیکیورٹی کا ہے، نصف پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس یا حساس ہیں، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ملک میں دہشت گردی ہے، دہشت گردی تو 90 کی دہائی سے ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ افواج بارڈر پر مصروف ہیں، اس معاملے کو بھی دیکھنا ہو گا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آج عدالت کا جاری سرکلر دیکھا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ بھی پڑھا ہے، جسٹس جمال مندوخیل بینچ سے الگ ہو چکے ہیں، دوسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کے تناسب کا ہے، تیسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کی بنیاد پر ہی ہے، موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے۔

انہوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 9 رکنی بینچ کے 2 اراکین نے رضاکارانہ بینچ سے علیحدگی اختیار کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کس نے کہا کہ 2 ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے، عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں اس میں کہاں لکھا ہے؟

اٹارنی جنرل نے 27 فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی ازسر نو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا، چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا، اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تو یہ ہماری پرائیویسی میں مداخلت ہوگی۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ آپ نے کہا کہ ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا، سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیر بحث لائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کر رہے تھے، ہم تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے، ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہیے، درجہ حرارت کم کرنے والے آپشن پر ہی رہیں، جلد ہی ان معاملات کو سلجھا دیں گے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ پہلے دن فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس نکتے پر آپ دلائل ضرور دیں، فل کورٹ والا معاملہ میرے ذہن میں تھا، بینچ بناتے وقت بہت کچھ ذہن میں رکھنا ہوتا ہے، ایک بات یہ ذہن میں ہوتی ہے کہ معمول کے مقدمات متاثر نہ ہوں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ موجودہ دور میں روز نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے، بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے، گزشتہ ہفتے کوئٹہ، کراچی اور لاہور میں بھی بینچ تھے، اس ہفتے بھی لاہور میں بینچ تھا، 9 رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا۔

’ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جارہا ہے‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جسٹس اطہر من اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر آئین کے ماہر ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ جسٹس مظاہر نقوی کو کیوں شامل کیا گیا، جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2 سال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے بھی مقدمہ سزا ہی تھا، سیاسی معاملہ چل رہا ہے، جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا، تمام ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ متحد تھی کچھ معاملات میں اب بھی ہے، عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے، کوئی نہیں دیکھتا اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزا دوں، جاکر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں 20 سال کی نسبت بہترین ججز ہیں، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں، جسٹس شاہد وحید نے بہترین اختلافی نوٹ لکھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جائے، قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا، میرا بھی دل ہے میرے بھی جذبات ہیں، جو کچھ کیا پوری ایمانداری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کیا۔

جو کچھ آج تک کیا آئین اور قانون کے مطابق کیا، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ جو کچھ آج تک کیا آئین اور قانون کے مطابق کیا، ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کریں، ٹیکس معاملے پر کیسے جج کا ٹرائل کریں۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس اقبال حمید الرحمٰن کو استعفیٰ دینے سے روکا تھا، جسٹس اقبال حمیدالرحمٰن نے کہا مرحوم باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا، چیف جسٹس کی کمرہ عدالت میں جذبات سے آواز بھر آئی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اپنے دلائل جلدی ختم کرلوں گا۔

وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف پورا نہیں سنا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو بات مکمل کرنے دیں۔

عرفان قادر نے کہا کہ میں صرف 3 منٹ بات کرتا ہوں، روز مجھے گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے، آپ جذباتی ہوسکتے ہیں تو ہم بھی ہوسکتے ہیں، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کو سنیں گے آپ نے 3 منٹ کا کہا ہے، عرفان قادر نے کہا کہ 3 منٹ نہیں بلکہ مختصراً بات مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، کیس کی بات کریں، ادھر ادھر کی باتوں سے میں جذباتی ہوگیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے الیکشن کے لیے سیکیورٹی اور پیسے دینے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں فنانس کے حوالے سے معلومات دینا چاہتا ہوں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کو معلومات نہیں قانون کے تحت عدالت کی معاونت کرنی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تمام فریقین کو بات کرنے کا موقع دیں گے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بات 20 ارب روپے کی ادائیگی کی نہیں ہے، حکومت کو 1500 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے، شرح سود 13 فیصد سے بڑھ گئی ہے، شرح سود بڑھنے سے حکومتی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا 20 ارب کی ادائیگی سے حکومت دیوالیہ ہو جائے گی؟

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب سیکیورٹی اور فنڈز پر بات کریں، جس پر اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے بتایا کہ پہلے سیاسی جماعتوں کو سن لیں، بعد میں دلائل دوں گا، معاشی حالات پر عدالت کو آگاہ کروں گا۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا 8 اکتوبر تک انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں، اس پر جواب دیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک، اکرم شیخ اور کامران مرتضیٰ کو بھی سنیں گے، پہلے ریاست پاکستان کو سننا چاہتے ہیں۔

ملک کو 1500 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے، اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل عثمان منصور نے دلائل دیے کہ معاملہ 20 ارب روپے کا نہیں پوری معیشت کا ہے، ملک کو 1500 ارب خسارے کا سامنا ہے، 30 جون تک شرح سود 22 فیصد تک جا سکتی ہے، شرح سود بڑھنے سے قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ماضی کے قرضوں پر بھی نئی شرح سود لاگو ہوتی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایک بھائی کو دوسرے بھائی کو کاٹنا نہیں چاہیے۔

20 ارب خرچ ہوتے ہیں تو خسارہ کتنے فیصد بڑھے گا، جسٹس منیب اختر

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے، فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز میں کتنی رقم موجود ہے، اگر 20 ارب خرچ ہوتے ہیں تو خسارہ کتنے فیصد بڑھے گا، 1500 ارب خسارے میں 20 ارب سے کتنا اضافہ ہو گا، الیکشن اخراجات شاید خسارے کا ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ضمنی بجٹ میں 170 ارب کی توقع ہے، اگر پورا جمع ہو گیا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فنڈز وزارت خزانہ کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2019 کے رولز پڑھ کر بتائیں فنڈ کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے، پبلک فنانشل منیجمنٹ ایکٹ کے تحت رولز کا جائزہ لیں، رولز کے مطابق تو کونسلیڈیٹڈ فنڈز اسٹیٹ بینک میں ہوتا ہے، اسٹیٹ بینک کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں ان کے پاس کتنا پیسہ ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے، کمیشن کہتا ہے کہ فنڈز مل جائیں تو 30 اپریل کو الیکشن کروا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فنڈز میں رقم ہونا اور خرچ کے لیے دستیاب ہونا الگ چیزیں ہیں، اسٹیٹ بینک کو رقم اور سونا ریزرو رکھنا ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد کردی، ‏اٹارنی جنرل نے ملکی خزانے کی صورتحال پر دلائل دینے کے بعد فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس روسٹر بنانے کا ماسٹر ہوتا ہے، یہ معاملہ اس پر چھوڑ دیں۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت پیر کو دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کو طلب کر لیا۔

چیف جسٹس کی ارکان اسمبلی کے بارے میں ریمارکس پر وضاحت

ادھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ارکان اسمبلی کے بارے میں ریمارکس کی وضاحت جاری کردی۔

ترجمان سپریم کورٹ کے مطابق چیف جسٹس کے کچھ ریمارکس میڈیا پر درست انداز میں رپورٹ نہیں ہوئے اور انہوں نے کہا آئین ہمارے لیے بہت اہم ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین اس قوم اور معاشرے کے لیے لازمی ہے جو وفاق کو جوڑے رکھتا ہے، آئین جمہوریت کو زندہ رکھتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھاکہ آپ پارلیمنٹ جائیں تو آپ کو خطاب کرتے ایسے لوگ ملتےہیں جو کل تک قید تھے، غدار قرار دیے گئے تھے، اب وہ لوگ وہاں بات کررہے ہیں اور ان کو عزت دی جارہی ہے کیونکہ وہ عوام کے نمائندے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز 5 رکنی بینچ میں شامل جسٹس امین الدین نے بھی خود کو سماعت سے علیحدہ کرلیا تھا کیوں کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک دوسرے بینچ کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے، جس میں آئین کی دفعہ 184 (3) کے تحت درج کیے گئے تمام مقدمات مؤخر کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے التوا کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے لیے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس امین الدین، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

تاہم جسٹس امین الدین نے کل کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے خود کو بینچ سے علیحدہ کرلیا تھا جس کے بعد 4 رکنی بینچ کو آج سماعت کرنی تھی تاہم اب جسٹس جمال خان مندوخیل کی علیحدگی کے بعد بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا اور اب صرف 3 ججز بینچ میں رہ گئے ہیں۔

چیمبر میں میٹنگ

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ تاخیر سے شروع ہونے والی کارروائی کے آغاز میں بظاہر پریشان چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ جسٹس امین الدین کچھ کہنا چاہیں گے۔

اس پر جسٹس امین الدین نے خود کو بینچ سے علیحدہ کرنے کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی 5 رکنی بینچ ٹوٹ گیا، جس کے کئی گھنٹوں بعد عدالتی عہدیدار نے اعلان کیا کہ کیس کی مزید سماعت جمعہ کی صبح 11:30 بجے ہوگی جس کے بینچ میں جسٹس امین الدین شامل نہیں ہوں گے۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ بینچ کے ٹوٹنے کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر چیف جسٹس کے چیمبر میں گئے اور اپنے ساتھی کے بینچ سے الگ ہونے کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا۔

بات چیت زیادہ تر اس بات کے گرد گھومتی تھی کہ کیا انتخابات التوا کیس کی سماعت بقیہ چار ججز کریں گے یا جسٹس جمال خان مندوخیل کو نکال کر تین ججز کریں گے اور کیا بدھ کو تین رکنی بینچ کی جانب سے ایک الگ کیس میں جاری کیے گئے حکم کو کالعدم قرار دینے کے بعد سماعت شروع ہوگی۔

واضح رہے کہ تین رکنی بینچ کی جانب سے جاری کیے گئے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین نے کہا تھا کہ آئین چیف جسٹس کو یک طرفہ اور صوابدیدی اختیار نہیں دیتا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت کیسز کیسے سماعت کے لیے لسٹ کیے جائیں، ایسے کیسز کی سماعت کے لیے بینچ کیسے تشکیل دیا جائے اور ایسے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججز کا انتخاب کیسے کیا جائے۔

گزشتہ سماعتوں کا احوال

خیال رہے کہ 27 مارچ کو ہونے والی پہلی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اگلے روز صبح ساڑھے 11 بجے تک جواب طلب کرکے سماعت ملتوی کردی تھی۔

سماعت کے بعد جاری ہونے والے تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات ملتوی کرنے کا آرڈر چیلنج کیا، پی ٹی آئی کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات ملتوی کرنے کا کوئی قانونی اور آئینی اختیار نہیں۔

تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ’بروقت عام انتخابات کا ایمانداری، منصفانہ اور قانون کے مطابق انعقاد جمہوریت کے لیے ضروری ہے، انتخابات میں تاخیر شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق متاثر کرنے کے مترادف ہے‘۔

سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ ’تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن درخواست میں اٹھائے گئے اہم قانونی اور حقائق پر مبنی سوالات کا جواب دے‘۔

28 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی دوسری سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ’کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے، یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے؟‘

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا‘۔

دوران سماعت انتخابات کے انعقاد کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی کا معاملہ زیر بحث آیا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’انتحابات کرانے کے لیے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے، حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے‘۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا تھا کہ ’فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں، کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جاسکتا، دہشت گردی کا مسئلہ 90 کی دہائی سے ہے، کیا نوے کی دہائی میں الیکشن نہیں ہوئے، کئی سیاسی لیڈرز کی جانیں قربان ہوئی، پیپلز پارٹی کی سربراہ کی شہادت بڑا سانحہ تھا، ان تمام حالات کے باوجود انتحابات ہوتے رہے ہیں، دوسری جنگ عظیم میں بھی انتحابات ہوئے تھے‘۔

29 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی تیسری سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ 4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’قانون واضح ہے کہ اقلیتی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جسٹس منصور اور جسٹس جمال خان کا فیصلہ اقلیتی ہے، دونوں ججز کا احترام ہے مگر اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلے پر غالب نہیں آسکتا‘۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’دہشت گردی کا مسئلہ تو ہے، 20 سال سے ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں، 90 کی دہائی میں 3 دفعہ الیکشن ہوئے، 90 کی دہائی میں فرقہ واریت اور دہشتگردی عروج پر تھی، 58 (2) (بی) کے ہوتے ہوئے ہر 3 سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کر کے قائل کرنا چاہیے تھا، آپ آج ہی عدالت کو قائل کرلیں، 8 اکتوبر کوئی جادوئی تاریخ ہے جو اس دن سب ٹھیک ہوجائے گا، 8 اکتوبر کی جگہ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں ہوسکتی؟

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعرات صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی تھی جس کے دوران اٹارنی جنرل نے دلائل دینے تھے۔

سماعت کے اختتام پر سپریم کورٹ نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے تحریک انصاف سے تحریری یقین دہانی مانگی تھی۔

تاہم جمعرات کو ہونے والی چوتھی سماعت میں جسٹس امین الدین نے کیس سننے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد 5 رکنی بینچ ٹوٹ گیا تھا۔

بعدازاں عدالتی عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ کیس کی سماعت 4 رکنی بینچ 31 مارچ (جمعہ کو) کرے گا۔

انتخابات التوا کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ 23 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر کو ہوں گے، آئین کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت فی پولنگ اسٹیشن اوسطاً صرف ایک سیکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پر کمی اور ’اسٹیٹک فورس‘ کے طور پر فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

فیصلے کی تفصیل کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس صورت حال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد، پولنگ کے عملے، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔

مزید کہا گیا تھا کہ وزارت خزانہ نے ’ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی‘ کا اظہار کیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے نشان دہی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ردعمل میں 23 مارچ کو پی ٹی آئی نے پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔

خیال رہے کہ رواں ماہ ہی الیکشن کمیشن نے 30 اپریل بروز اتوار پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات پر پولنگ کے لیے شیڈول جاری کر دیا تھا۔

3 مارچ کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات 30 اپریل بروز اتوار کرانے کی تجویز دی تھی۔

ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت نے تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ تاریخوں پر غور کرنے کے بعد کیا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز کی مقررہ مدت میں کرائے جائیں، تاہم عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو اجازت دی تھی کہ وہ پولنگ کی ایسی تاریخ تجویز کرے جو کہ کسی بھی عملی مشکل کی صورت میں 90 روز کی آخری تاریخ سے ’کم سے کم‘ تاخیر کا شکار ہو۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ صدر مملکت اور گورنرز الیکشن کمیشن پاکستان کی مشاورت سے بالترتیب پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تاریخیں طے کریں گے۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں بالترتیب 14 اور 18 جنوری کو تحلیل ہوئیں، قانون کے تحت اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں۔

اس طرح 14 اپریل اور 17 اپریل پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کی آخری تاریخ تھی لیکن دونوں گورنرز نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ کی تاریخ مقرر کرنے کی تجویز ملنے کے بعد انتخابات کی تاریخیں طے کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشورے کا کہا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں