کوئٹہ میں ملازمت کرنے والی خواتین کی شرح صرف 16 فیصد

اپ ڈیٹ 02 اپريل 2023
مارکیٹ کے قابل مہارتوں کی کمی خواتین کو ملازمتیں تلاش کرنے سے روکتی ہے —تصویر: رائٹرز
مارکیٹ کے قابل مہارتوں کی کمی خواتین کو ملازمتیں تلاش کرنے سے روکتی ہے —تصویر: رائٹرز

عالمی بینک کی جانب سے کوئٹہ کے شہری گھریلو سروے کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ 72 فیصد مردوں کے مقابلے میں یہاں کام کرنے والی عمر کی صرف 16 فیصد خواتین لیبر مارکیٹ میں حصہ لیتی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’کوئٹہ میں افرادی قوت میں خواتین‘ کے عنوان سے کیے گئے سروے سے پتا چلتا ہے کہ لیبر مارکیٹ میں کم شرکت کا تجربہ کرنے کے ساتھ شہری کوئٹہ میں ملازمت کرنے والی خواتین زیادہ تر کم ویلیو ایڈڈ سرگرمیوں میں کام کرتی ہیں، جن میں اپنے اکاؤنٹ، غیر رسمی اور گھر پر مبنی کام کا زیادہ پھیلاؤ ہوتا ہے۔

ایک ہی وقت میں وہ سماجی طور پر قبول شدہ پیشوں کے مطابق ملازمتیں انجام دیتی ہیں۔

کام کرنے والی خواتین بنیادی طور پر مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں ملبوسات اور دستکاری کے کارکنوں کے طور پر کام کرتی ہیں، صرف ایک اقلیت (اعلیٰ تعلیم یافتہ) زیادہ ہنر مند کام انجام دیتی ہے جیسے کہ اساتذہ یا صحت کے پیشہ ور افراد، باقی دیگر غیر روایتی شعبوں میں ان کی نمائندگی بہت کم ہے۔

سروے نے نشاندہی کی کہ سماجی اصول، عوامی حلقوں اور افرادی قوت کے ساتھ خواتین کے رابطے کا تعین سب سے زیادہ طاقتور عنصر نظر آتے ہیں۔

اس کے علاوہ گھریلو رویے اور سماجی اصول اس بات کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ خواتین تنخواہ کے لیے کب اور کیسے کام کر سکتی ہیں۔

اس تناظر میں خواتین کو بااختیار بنانے کی حوصلہ افزائی کے لیے سماجی اصولوں پر اثر انداز ہونے کی مستقل طویل المدتی پالیسی کوششوں کی ضرورت ہے۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اصولوں کو متاثر کرنے کے لیے ممکنہ مداخلتوں میں مضبوط خواتین رول ماڈلز کے بارے میں مثبت پیغام رسانی کا تزویراتی استعمال شامل ہے۔

جیسا کہ شواہد کے ایک بڑے حصے اور پشاور اور کوئٹہ کے گھریلو سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر خواتین زیادہ تعلیم یافتہ ہوں تو ان کے لیبر فورس میں شامل ہونے کا زیادہ امکان ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم کو محدود کرنے والی طلب اور رسد دونوں کی رکاوٹوں کو دور کرنا ایک اہم ترجیح ہے، اسی طرح مارکیٹ کے قابل مہارتوں کی کمی خواتین کو ملازمتیں تلاش کرنے سے روک سکتی ہے۔

شہری کوئٹہ میں سب سے زیادہ ملازمت کرنے والی خواتین (78.6 فیصد) گھریلو کام کرنے والی ہیں جو زیادہ تر غیر رسمی ملازمتوں میں کام کرتی ہیں۔

خواتین کے لیے گھر سے کام کرنا ایک متبادل ہے جو موجودہ سماجی اصولوں کے مطابق کام کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس کی حیثیت کو تسلیم کرنے کے لیے حالیہ قانون سازی کا مؤثر نفاذ صوبے میں خواتین کی معاشی شراکت کو بہتر بنا سکتا ہے۔

گزشتہ سال اپریل میں بلوچستان اسمبلی نے ہوم بیسڈ ورکرز بل منظور کیا تھا، جس کا مقصد صوبے میں گھریلو کام سے منسلک خواتین اور دیگر ورکرز کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔

انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) خواتین کو بہتر منڈیوں تک رسائی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور انہیں نقل و حرکت اور سماجی اصولوں سے متعلق رکاوٹوں کو دور کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

کوئٹہ سروے سے پتا چلتا ہے کہ شہری کوئٹہ میں کام کرنے کی عمر کی 55 فیصد خواتین کو انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے اور 13 فیصد انٹرنیٹ کے بارے میں نہیں جانتی جب کہ ان کے مقابلے مردوں کی تعداد بالترتیب 32 اور 2 فیصد ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں