’طالبان نے بھارت سے رابطہ کرنے سے قبل جنرل (ر) باجوہ سے مشاورت کی تھی‘

اپ ڈیٹ 26 اپريل 2023
مناظر نے اس بات کا ثبوت فراہم کیا کہ پاکستان کا طالبان پر بہت زیادہ اثر و رسوخ تھا—تصاویر: آئی ایس پی آر/اناطولو ایجنسی
مناظر نے اس بات کا ثبوت فراہم کیا کہ پاکستان کا طالبان پر بہت زیادہ اثر و رسوخ تھا—تصاویر: آئی ایس پی آر/اناطولو ایجنسی

افغان طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بھارت کو اس کے سفارت کار اور تکنیکی عملے کو واپس بھیجنے کا کہنے سے قبل پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے تفصیلی ملاقات کی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ انکشافات افغانستان کے عبوری حکمرانوں سے متعلق ایک نئی کتاب ’دی ریٹرن آف دی طالبان‘ میں سامنے آئے ہیں۔

کتاب میں بتایا گیا کہ واشنگٹن میں جنوبی ایشیائی امور کے سینیئر اسکالر ماروین جی وین بام نے کہا کہ طالبان کی واپسی ’ان کے اقتدار پر قبضے کا سبب بننے والے اہم فیصلوں‘ کو ظاہر کرتی ہے اور وضاحت کرتی ہے کہ ’بحیثیت حکمران وہ کس طرح اپنے سخت نظریے کے ساتھ تبدیلی کے دباؤ کو حکم کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں‘۔

یہ کتاب حسن عباس کی تصنیف ہے، جو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) واشنگٹن میں بین الاقوامی تعلقات کے استاد ہیں، کتاب رواں ہفتے کے آخر میں امریکا میں جاری کی جائے گی۔

حسن عباس نے لکھا کہ کابل میں بھارت کی واپسی ’پاکستان کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی اور پاکستان نے اس سمت میں اقدام اس لیے اٹھایا کیونکہ اس سے افغانستان میں طالبان کے لیے کچھ امداد کے امکانات کھل سکتے تھے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ افغانستان کو چلانے کے لیے درکار مالی مدد کے حصول کے لیے پاکستان اتنا ہی بے چین ہے جتنے طالبان خود‘۔

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے افغانستان میں تزویراتی مفادات ہیں حالانکہ روس اور چین کے برعکس بھارت نے طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔

کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’بھارت اب سنجیدگی سے اپنی پوزیشن کا از سر نو جائزہ لے رہا ہے اور طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے اور افغانستان کو مستحکم کرنے میں مدد کرنے کی کوشش میں ایک متوازن عمل کی جانب بڑھ رہا ہے‘۔

طالبان، بھارت کے ساتھ تعلقات کیوں بہتر کرنے کے خواہاں ہیں پر بات کرتے ہوئے کتاب میں کہا گیا کہ ’طالبان کی خواہش سادہ ہے، یعنی بین الاقوامی قانونی حیثیت اور پہچان‘، کابل کے نئے حکمرانوں کو بھی ’ملک کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے بڑی بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے‘ اور بھارت کے پاس ایسا کرنے کے لیے وسائل موجود ہیں۔

افغانستان میں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا اثر و رسوخ کو ظاہر کرنے کے لیے کتاب میں طالبان کے وزیر خزانہ ہدایت اللہ بدری کی کہانی بیان کی گئی، جنہیں گل آغا اسحٰق زئی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 9/11 کے بعد پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں تکالیف برداشت کرچکے ہیں۔

کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ بعد ازاں امیر خان متقی ’خود انہیں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے پاس لے کر گئے تا کہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاسکے، صرف قمر جاوید باجوہ کی رضامندی نے انہیں ملک کا وزیر خزانہ بننے کا موقع فراہم کیا‘۔

کتاب میں طالبان کے قبضے کے فوراً بعد آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کے دورہ کابل کے بارے میں بھی بات کی گئی اور دعویٰ کیا گیاکہ کہ دفتر خارجہ نے جنرل (ر) فیض حمید کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے میں رہنے کا مشورہ دیا تھا لیکن زیادہ پراعتماد اسپائی چیف نے اسے مسترد کر دیا تھا۔

بعد ازاں، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سمیت پاکستانی سیاستدانوں سے ملاقات میں انہوں نے اپنے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت امریکی اور چینی انٹیلی جنس سربراہان نے بھی کابل کا دورہ کیا تھا۔

جس پر انہیں یاد دلایا گیا کہ وہ واحد تھے جس کی تصویر سامنے آئی اور کابل کے سرینا ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے ویڈیو اور تصاویر وائرل ہوئیں۔

کتاب کا استدلال ہے کہ ’مناظر نے اس بات کا ثبوت فراہم کیا کہ پاکستان کا طالبان پر بہت زیادہ اثر و رسوخ تھا جس کا پاکستان کے ساتھ ساتھ طالبان کو بھی نقصان پہنچا‘۔

اس کتاب میں افغانستان میں عسکریت پسند گروپ داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا بھی جائزہ لیا گیا اور کہا گیا کہ اگست 2021 سے جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا، اگست 2022 تک اس نے ملک میں 262 حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔

کتاب کے مطابق ’یہ معاملہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کے درمیان مئی 2022 کے اوائل میں واشنگٹن میں ہونے والی گفتگو میں ایک اہم ایجنڈا آئٹم تھا، اس وقت پاکستانی وفد میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر) فیض حمید بھی شامل تھے‘۔

ڈائریکٹر سی آئی اے ولیم برنز نے انہیں بتایا کہ اس شرح سے داعش 2023 کے وسط تک افغانستان کے 20 فیصد حصے پر کنٹرول حاصل کر سکتی ہے جس کے جواب میں جنرل ندیم انجم نے (گروپ کی) اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے اور انٹیلی جنس شیئرنگ کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

کتاب میں کہا گیا کہ ملاقات کے اختتام پر’ دونوں فریق ایک دلچسپ نتیجے پر پہنچے کہ اب امریکا اور افغانستان کے پڑوسی ممالک کی قومی سلامتی کے لیے بنیادی خطرہ افغان طالبان نہیں بلکہ داعش ہے’۔

کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ طالبان کے قبضے کے ابتدائی ایام میں جنرل (ر) فیض حمید نے طالبان کی قیادت سے درخواست کی تھی کہ ’عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی دونوں کو اعلیٰ عہدوں کی پیشکش کریں لیکن وہ ایسا کرنے پر راضی نہیں ہوئے۔

کتاب میں طالبان حکومت کے ساتھ منسلک رہنے کی چین کی خواہش کو بھی اجاگر کیا گیا، اس میں کہا گیا کہ ’چین نے نہ صرف اپنا سفارت خانہ کھلا رکھا بلکہ طالبان کی نئی حیثیت کا خیرمقدم بھی کیا‘ ساتھ ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے فنڈز کو غیر منجمد کرے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں