اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


کائنات کی سچائیوں میں سے ایک سچائی یہ بھی ہے کہ جس صبح پرواز ہو اس سے پچھلی رات جہاز کے عملے کو نیند نہیں آتی۔ کوئی ایک آدھا جھونکا تو آجاتا ہے مگر پُرسکون نیند مشکل ہی ہے کہ دنیا کے کسی فضائی میزبان کو کبھی چُھو کر بھی گزری ہو۔

چاہے پرواز اندرونِ ملک ہو یا بیرونِ ملک، اگر صبح فلائٹ کے لیے پک اپ ہے تو بس نہ خواب تک نوبت پہنچے گی اور نہ ہی خرگوش سے رابطہ ہوگا۔ مجھے تو اگر نیند آبھی جاتی تھی تو اچانک آنکھ کھل جاتی اور لگتا تھا میں سوتا ہی رہ گیا ہوں اور پرواز چلی گئی ہے۔

میرے خیال سے ایسا حد درجہ احساسِ ذمہ داری کے باعث ہوتا ہے۔ اس نوکری میں آکر دو چیزیں عملے کو مفت میں مہیا کی جاتی ہیں۔ احساسِ ذمہ داری اور بے یقینی۔ یہ دونوں چیزیں فضائی میزبانوں کی زندگی سے ایسے چمڑی (چپکی) رہتی ہیں جیسے ایلفی اگر انگلی پر لگ جائے تو کھال کے ساتھ ہی اترتی ہے۔

وقت پر تیار ہوکر ہوائی اڈے پہنچنا، وقت پر اکٹھے ہوکر جہاز پر رپورٹ کرنا، ہنگامی حالات کے نقطہ نظر سے جہاز کو جانچ کر مسافروں کو جہاز میں خوش آمدید کہنے کے لیے زمینی عملے کو وقت پر ہدایات دینا اور پھر جہاز کے کپتان کو یہ واضح کردینا کہ فضائی عملے کی طرف سے جہاز روانگی کے لیے تیار ہے جیسے کام تو روز مرہ کی ذمہ داریوں میں آتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ فضائی عملے کو پرواز کے لیے ضروری کاغذات کو بھی ’اپ ٹو ڈیٹ‘ رکھنا پڑتا ہے جن میں پاسپورٹ، تین طرح کے جہازوں پر پرواز کرنے کے لیے لائسنس اور دیگر کاغذات شامل ہیں۔

جس دن پرواز ہو اس کی پچھلی رات عملے کو نیند نہیں آتی
جس دن پرواز ہو اس کی پچھلی رات عملے کو نیند نہیں آتی

ذمہ داریوں کے بعد بے یقینیاں آتی ہیں کہ جہاں گلگت کی پرواز کے لیے پہنچنے والا عملہ لندن کی راہ لے رہا ہوتا ہے وہیں 1 ہفتہ استنبول میں گزارنے کے لیے مکمل سامان باندھ کر آنے والا عملہ پرواز منسوخ ہونے کی وجہ سے واپس گھر جارہا ہوتا ہے۔ اوسلو کے پُر فضا مقامات کی تازگی کا احساس لیے ہوائی اڈے پہنچنے والے 13 اراکین میں سے 2 کو اسلام آباد سے کراچی جانا پڑ جاتا ہے تو وہیں پیرس پہنچنے والے عملے کو ایک دن مزید وہیں رکنا پڑ جاتا ہے کیونکہ موسم کی خرابی کی وجہ سے پرواز وقت پر نہیں پہنچ پاتی۔

ان تمام بے یقینیوں کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں۔ یہاں بے یقینی کا اول انعام حاصل کیا ہے موسم کی خرابی نے۔ محکمہ موسمیات کے محبوب ترین مالاکنڈ ڈویژن سے جب کبھی گرج چمک کے ساتھ بارش کا طوفان ملک میں نیچے کی طرف پھیلتا ہے تو پروازیں تاخیر کا شکار ہوجاتی ہیں یا پھر منسوخ۔ بین الاقوامی پروازوں کو سب سے زیادہ موسم سرما میں آنے والے برف کے طوفان متاثر کرتے ہیں۔

اگست 2014ء میں ایک نئے معاملے سے نمٹنا پڑا جوکہ کم از کم میری پیشہ ورانہ زندگی کا تو پہلا واقعہ تھا۔ صبح سویرے پرواز تھی اور میں بستر پر لوٹیں لگاتا منٹ منٹ بعد موبائل کی گھڑی دیکھتا کہ صبح ہوگئی ہے یا مجھے پتا نہیں چل رہا۔ رات کے کسی پہر غفلت بھری پُرسکون نیند سے مجھے مشہور موسیقار بیتھوون کی طرز ’Ode to Joy‘ نے جوکہ میرے موبائل کی رنگ ٹون تھی، اٹھا دیا۔ پہلا ہی خیال یہ آیا کہ استاد گیم پڑگئی ہے اور میں سوتا ہی رہ گیا ہوں۔ خیر دفتر سے فون آیا کہ آپ کی پرواز منسوخ ہوگئی ہے۔

یہ خبر سن کر کچھ تسلی ہونے کے ساتھ پیٹ میں کھلبلی مچ گئی اور معدے سے ایسی آوازیں آنے لگیں کہ اگر کوئی سن لیتا تو بڑی شرمندگی ہوتی۔ رات کے ساڑھے 3 بجے ٹوسٹ پر مکھن لگاتے ہوئے میں نے خبروں پر ایک نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ آئس لینڈ میں ایک آتش فشاں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ کیوں نہ اپنی آتش فشانی راکھ ہزاروں کلومیٹر فضا میں بکھیر دے تاکہ ساری دنیا میں مزید آلودگی کے ساتھ ساتھ یورپ میں فضائی آمد و رفت کا نظام درہم برہم ہوجائے۔

آتش فشاں پھٹ جائے تو اس کے ذرات فضا میں دور دور تک پھیل جاتے ہیں اور فضائی آمد و رفت کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے
آتش فشاں پھٹ جائے تو اس کے ذرات فضا میں دور دور تک پھیل جاتے ہیں اور فضائی آمد و رفت کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے

اس آتش فشاں پہاڑ نے اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنایا اور یورپ میں سیکڑوں پروازیں منسوخ ہوگئیں۔ جس جہاز پر میری پرواز تھی وہ مانچسٹر سے آنی تھی مگر اس واقعے کی وجہ سے دنیا کی متعدد ایئرلائنز کے جہازوں کی طرح ہمارا جہاز بھی مانچسٹر میں ہی روک دیا گیا۔

آتش فشاں سے نکلنے والی راکھ فضا میں 30 ہزار فٹ تک اوپر جاچکی تھی۔ مسافر بردار جہاز عمومی طور پر 36 سے 38 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں جہازوں کے لیے اڑان بھرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ مطلوبہ بلندی تک پہنچنے کے لیے اس راکھ میں سے گزرنا خود راکھ ہونے کے مترادف تھا۔ آتش فشاں پہاڑ سے نکلنے والی اس راکھ کے ذرات اس قدر گرم ہوتے ہیں کہ یہ جہاز کی باڈی، کاک پٹ کی اسکرین اور انجن کے بلیڈ کو پگھلا سکتے ہیں۔ ہزاروں مسافر خوار ہوگئے اور ایئرلائن کمپنیوں کو بھی بہت نقصان اٹھانا پڑا۔

آتش فشاں کے ذرات جہاز کی باڈی، کاک پٹ اور انجن کو پگھلا سکتے ہیں
آتش فشاں کے ذرات جہاز کی باڈی، کاک پٹ اور انجن کو پگھلا سکتے ہیں

یورپ کی پروازوں پر جانے اور پھر وہاں اس صورت حال کی وجہ سے 10 دن تک پھنسے رہنے والے عملے میں میرے کچھ دوست بھی شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے 2، 3 دن تو آرام سے گزرگئے کیونکہ معلوم نہیں تھا کہ 10 دن رکنا پڑے گا اور کچھ دن کا اضافی بندوبست تو ہمیشہ عملہ کرکے ہی آتا ہے۔ پھر سب کے کریڈٹ کارڈ کام آنے لگے۔ وہاں موجود دوستوں کو پتا چلا تو وہ مدد کو آگئے۔ ایک بڑا مسئلہ کپڑوں کا بھی تھا۔ لیکن میرے دوست نے بتایا کہ وہ اس وقت شادی شدہ تھا تو کپڑے دھونے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ بہ قول اس کے برطانیہ میں ملنے والا سرف اچھا ہوتا ہے، زیادہ صرف نہیں کرنا پڑتا اور کپڑوں میں سفیدی برف جیسی آتی ہے۔

10 دن کے بعد فضائی آمد و رفت رواں ہوئی تو تمام عملہ اپنے گھر پہنچا۔ شکر ہے ہمارے یہاں کوئی آتش فشاں نہیں ہے لیکن گوروں کی آتش فشانیوں نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کبھی یہ فضا میں راکھ بکھیر دیتی ہے تو کبھی یہ آتش ٹی وی اور فلموں میں اپنی فشانیاں عیاں کرتی نظر آتی ہے۔ دیکھیے کہاں تک بچت ہوتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں