پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں مزید 79 ارب روپے کی کٹوتی

اپ ڈیٹ 21 مئ 2023
اتحادی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کے لیے فنانسنگ 87 ارب سے بڑھا کر 90 ارب روپے کردی گئی — فائل فوٹو: اے ایف پی
اتحادی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کے لیے فنانسنگ 87 ارب سے بڑھا کر 90 ارب روپے کردی گئی — فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے مالیاتی مشکلات کا حوالہ دے کر پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں ایک بار پھر 79 ارب روپے کی کٹوتی کردی جس کے بعد اس کا حجم 566 ارب 85 کروڑ روپے ہوگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے برعکس اتحادی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کے لیے فنانسنگ 87 ارب سے بڑھا کر 90 ارب روپے کردی، جنہیں ترقیاتی فنڈز میں سے سب سے زیادہ رقم ملی۔

پی ایس ڈی پی کے تحت ملک بھر میں ترقیاتی اسکیموں پر رقم خرچ کی جاتی ہے، بجٹ 23-2022 میں میں اس مد میں 800 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی تھی لیکن مالی سال ختم ہونے سے ایک مہینے قبل اسے کم کرکے 566 ارب 85 کروڑ روپے کر دیا گیا۔

پہلے ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص رقم کم کرکے 645 ارب 92 کروڑ، اس کے بعد 566 ارب 85 کروڑ روپے کر دی گئی، جبکہ پی ایس ڈی پی میں کُل 233 ارب روپے کی کٹوتی کی گئی۔

پالیمان کی جانب سے ترقیاتی فنڈز کے لیے مختص کی گئی رقم میں مسلسل دوسرے سال کٹوتیاں کی گئیں، مالی سال 2022 میں 800 ارب روپے کے مقابلے میں پی ایس ڈی پی کو کم کرکے 516 ارب 31 کروڑ روپے کیا گیا۔

وزارت منصوبہ بندی نے ہفتے کو اعلان کیا کہ انہوں نے مالی سال 2023 کی آخری سہ ماہی (اپریل تا جون) کے لیے 72 ارب روپے کی منظوری دی ہے جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 50 ارب روپے زیادہ رقم ہے۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ترقیاتی اخراجات کو بڑھتے ہوئے مالی خسارے کی وجہ سے محدود کیا گیا، جو جاری خسارہ بڑھنے کی وجہ سے ہوا۔

ریونیو میں کمی کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت میں 74 وزرا اور معاون خصوصی شامل ہیں، جو تنخواہوں کے علاوہ خصوصی مراعات حاصل کر رہے ہیں حالانکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہیں اور صنعتوں کی پیداوار میں تنزلی ہوئی ہے۔

سرکاری کارپوریشنز، توانائی کا شعبہ اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے کُل ترقیاتی اخراجات مالی سال 2023 میں 17 فیصد اضافے کے بعد 96 ارب 78 کروڑ روپے ہوگئے جو مالی سال 2022 میں 81 ارب 96 کروڑ روپے تھے۔

اخراجات کی تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ سرکاری کارپوریشنز کی طرف سے فنڈز کا استعمال زیادہ ہوا، پاور سیکٹر کے منصوبوں میں 64.6 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا جو مالی سال 2022 کے 12 ارب 27 کروڑ روپ روپے سے بڑھ کر مالی سال 2023 میں 20 ارب 20 کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔

دوسری طرف، مالی سال 2023 میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے اخراجات بڑھ کر 76 ارب 57 کروڑ روپے ہو گئے، جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 69 ارب 69 کروڑ روپے ریکارڈ کیے گئے تھے، جو 9.87 فیصد اضافہ ہے۔

ان دو شعبوں میں ترقیاتی اخراجات اپنے حلقوں میں ووٹ لینے کی وجہ سے بڑھے، اپنے مضبوط سیاسی حلقوں میں سڑکیں و دیگر ترقیاتی کام کروائے گئے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس کافی فنڈز ہیں لیکن پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کرانے کا ارادہ نہیں ہے۔

کارپوریشنز اور دیگر خصوصی اقدامات کے علاوہ وفاقی حکومت اور ڈویژنز اور ملحقہ محکمہ جات کی جانب سے کیے گئے ترقیاتی اخراجات مالی سال 2023 میں 469 ارب 70 کروڑ روپے رہے جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران 385 ارب 53 کروڑ ڈالر رہے تھے، یہ 21.82 فیصد اضافہ ہے۔

آبی وسائل ڈویژن نے مالی سال 2023 میں 89 ارب 29 کروڑ روپے کے فنڈز حاصل کیے، جو گزشتہ برس کے 64 ارب 19 کروڑ کے مقابلے میں 39 فیصد زائد رہے، یہ اضافہ جاری بڑے ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے ہوا۔

ترقیاتی اخراجات میں دوسرا سب سے بڑا حصہ صوبوں اور خصوصی علاقوں کو دیا گیا جو مالی سال 2023 میں 91 ارب 84 کروڑ روپے رہا۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کو 42 ارب 92 کروڑ روپے کے اخراجات کرنے کی منظوری دی گئی، جس کے بعد پاکستان اٹامک انرجی کے لیے 25 ارب روپے 90 کروڑ، ریلوے کے لیے 25 ارب 81 کروڑ ، ہاؤسنگ کے لیے 19 ارب 52 کروڑ، فوڈ سیکیورٹی کے لیے 12 ارب 32 کروڑ اور قومی صحت کی خدمات کے لیے مزید 11 ارب 77 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔

وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کہتے رہے ہیں کہ وفاقی حکومت کو صوبوں کے پروجیکٹ میں فنڈنگ نہیں کرنا چاہیے، ان کا کہنا ہے کہ وفاق کو صرف اعلیٰ ترجیح والے منصوبوں میں صوبوں کے ساتھ 50-50 کے تناسب سے معاونت کرنی چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں