آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کا اپنی کارروائی پبلک کرنے کا اعلان

اپ ڈیٹ 22 مئ 2023
کمیشن نے اٹارنی جنرل سے تمام آڈیو لیکس کے ٹرانسکرپٹ طلب کرلیے — تصاویر: فیس بک/سپریم کورٹ ویبسائٹ
کمیشن نے اٹارنی جنرل سے تمام آڈیو لیکس کے ٹرانسکرپٹ طلب کرلیے — تصاویر: فیس بک/سپریم کورٹ ویبسائٹ

عدلیہ اور ججز سے متعلق آڈیو لیکس کی تحقیقات کرنے والے انکوائری کمیشن کے پہلے اجلاس میں اس کی کارروائی پبلک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے عدلیہ اور ججوں سے متعلق مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیشن قائم کیا تھا۔

کمیشن کے قیام کا نوٹی فکیشن کابینہ ڈویژن سے جاری کیا گیا جو 19 مئی کو گزیٹ آف پاکستان میں شائع ہوا تھا۔

سپریم کورٹ میں کمیشن کے سربراہ اور عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارت میں اس کا اجلاس ہوا جس کے دوران اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان پیش ہوئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کمیشن کس قانون کے تحت تشکیل دیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیشن انکوائری کمیشن ایکٹ 2016 کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔

اجلاس کے دوران اٹارنی جنرل نے کمیشن کے نوٹی فکیشن سے ٹی او آرز اور اختیارات پڑھ کر سنائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہونے کی وجہ سے میرے کچھ آئینی فرائض بھی ہیں، میں سپریم جوڈیشل کونسل کا بھی رکن ہوں۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن میں پیش ہونے والا کوئی بھی ملزم نہیں ہے، تمام پیش ہونے والوں کو احترام دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پر بھاری ذمہ داری ہے، چاہتے ہیں کہ کمیشن جلد از جلد اپنی کارروائی مکمل کرے۔

بعد ازاں انکوائری کمیشن نے آڈیو لیکس سے متعلق کارروائی کو پبلک کرنے کا اعلان کردیا اور کہا کہ کوئی حساس معاملہ سامنے آیا تو ان کیمرا کارروائی کی درخواست کا جائزہ لیں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ کمیشن کی کارروائی سپریم کورٹ اسلام آباد بلڈنگ میں ہوگی، جن سے متعلق انکوائری کرنی ہے ان میں 2 بزرگ خواتین بھی شامل ہیں اس لیے اگر درخواست آئی تو کمیشن کارروائی کے لیے لاہور بھی جاسکتا ہے۔

انہوں نے اٹارنی جنرل کو کمیشن کی کارروائی کے لیے آج ہی ایک موبائل فون اور سم فراہم کرنے کی ہدایت کی اور اعلان کیا کہ انکوائری کمیشن کے لیے فراہم کردہ فون نمبر پبلک کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ کمیشن نے اٹارنی جنرل سے تمام آڈیو لیکس کے ٹرانسکرپٹ طلب کرلیے۔

ساتھ ہی آڈیوز میں شامل تمام افراد کے نام، پتے اور رابطہ نمبرز بھی طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو تمام ریکارڈ 24 مئی سے پہلے جمع کروانے کی ہدایت کی۔

کمیشن نے اٹارنی جنرل سے اِن کیمرا کارروائی کا پوچھا تو انہوں نے حساس معلومات کے علاوہ تمام کارروائی کھلی عدالت میں کی جانے کی حمایت کی۔

کمیشن نے کہا کہ حکومت کسی سطح پر کارروائی ان کیمرہ کرنے یا جگہ تبدیل کرنے کا کہہ سکتی ہے۔

انکوائری کمیشن نے اٹارنی جنرل کو تمام متعلقہ افراد کو نوٹسز جاری کرنے اور ان کی فوری تعمیل کرانے کی ہدایت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نوٹس متعلقہ شخص کو ملنے پر اس کا ثبوت تصویر یا دستخط کی صورت میں فراہم کیا جائے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کمیشن کا سیکریٹری مقرر کرنا ہماری ذمہ داری ہے، آج جوڈیشل کمیشن کے سیکریٹری کا نام فائنل کرکے بتا دیا جایے گا، کمیشن اپنا حکم نامہ اٹارنی جنرل کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرے گا۔

کمیشن نے کہا کہ پوری کوشش کی جائے گی کہ مینڈیٹ کے مطابق کارروائی مکمل کی جائے، انکوائری کمیشن کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے نہ کرے گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن صرف حقائق کے تعین کے لیے قائم کیا گیا ہے، اس سے سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام گواہوں کی نہ صرف عزت کریں گے بلکہ جواب میں عزت کی توقع بھی کرتے ہیں، کمیشن کو اختیار ہے کہ تعاون نہ کرنے والوں کے سمن جاری کر سکے تاہم کمیشن صرف نوٹس جاری کرے گا کوشش ہوگی کسی کے سمن جاری نہ ہوں، حکومتی افسران کے پاس پہلے ہی انکار کی گنجائش نہیں ہوتی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عوام سے معلومات حاصل کرنے کے لیے اردو اور انگریزی اخبارات میں اشتہارات جاری کیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ جوڈیشل کمیشن نے آڈیو لیکس کی کارروائی کے دوران آڈیوز چلانے کے انتظامات کی بھی ہدایت کی۔

انکوائری کمیشن نے اٹارنی جنرل کو آڈیوز کی تصدیق کے لیے متعلقہ ایجنسی کا تعین کرنے کی بھی ہدایت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آڈیو لیکس کی تصدیق کیسے ہو گی؟ آڈیو لیکس کی تصدیق کے لیے پنجاب فرانزک ایجنسی سے رابطہ کیا جا سکتا ہے، اگر کوئی شخص کہے کہ آڈیو میں آواز ان کی نہیں یا ٹمپرڈ ہے تو اس کی تصدیق پہلے سے کرنا ہو گی۔

کمیشن نے اپنے پہلے اجلاس کی کارروائی کے حکم نامے میں کہا کہ اجلاس میں پنجاب فرانزک ایجنسی کا نمائندہ موجود رہے گا، اگر کوئی فرد انکار کرے کہ میری آواز نہیں ہے تو وہ معاونت فراہم کرے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ اگر قابل احترام بزرگ خواتین کے بیانات قلمبند کرنے کی ضرورت پیش آئی تو کمیشن اجلاس لاہور میں بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔

ساتھ ہی جوڈیشل کمیشن نے مبینہ آڈیوز کی فہرست طلب طلب کرلی۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ نوٹسز وفاقی حکومت مقرر کردہ افسر یا کوریئر کے ذریعے بھیجے جائیں، جس شخص کو نوٹس بھیجا جائے اس کی نوٹس وصولی کی تصویر اتاری جائے۔

کمیشن نے حکم دیا کہ نوٹس ایک سے زائد بار جاری کیا جائے، بار بار نوٹس بھیجنے کے باوجود وصول نہ کرنے والے فرد کے گھر کے باہر نوٹس چسپاں کرکے اس کی تصویر بنائی جائے۔

بعد ازاں انہوں نے کہا کہ کمیشن کی کارروائی ہفتے کے روز ہوگی اور مزید کارروائی 27 مئی تک کے لیے ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی ایسی آڈیوز سامنے آئی ہیں جنہیں عدلیہ یا ججز سے منسوب کیا گیا تھا۔

ان کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کے سربراہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اس کے اراکین میں شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں