سندھ کے اراکین قومی اسمبلی کی مردم شماری میں بے ضابطگیوں پر تنقید

31 مئ 2023
پیپلز پارٹی کی شاہدہ رحمانی نے کہا کہ سندھ حکومت پہلے ہی مردم شماری کے عمل پر ’تحفظات‘کا اظہار کر چکی ہے—تصاویر: اسکرین گریب
پیپلز پارٹی کی شاہدہ رحمانی نے کہا کہ سندھ حکومت پہلے ہی مردم شماری کے عمل پر ’تحفظات‘کا اظہار کر چکی ہے—تصاویر: اسکرین گریب

سندھ سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی نے ملک میں حال ہی میں ختم ہونے والی مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل میں سنگین بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا جس سے ان کے مطابق چھوٹے صوبوں میں رہنے والے لوگوں میں احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے اراکین نے پوائنٹ آف آرڈر پر تقریر کرنے کا موقع ملنے کے بعد یہ سنگین مسائل اٹھائے جب اسپیکر نے ایجنڈے کے بیشتر آئٹمز کو یا تو موورز یا متعلقہ وزرا کی عدم موجودگی کی وجہ سے مؤخر کر دیا۔

حیدرآباد سے ایم کیو ایم پی کے ایم این اے صابر قائم خانی نے الزام لگایا کہ مردم شماری کے عمل میں نہ صرف سندھ کے شہری علاقوں بلکہ دیہی علاقوں میں بھی بے ضابطگیاں کی گئیں اور بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے بھی ایسی ہی آوازیں آرہی ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم مردم شماری سے متاثر ہونے والے لوگ ہیں‘، کراچی اور حیدرآباد میں بہت سے لوگوں کو اس مشق میں شمار نہیں کیا گیا جس پر حکومت نے 35 ارب روپے خرچ کیے تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے اپنے حلقوں میں بہت سے مکانات کو نشان زدہ چھوڑ دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب حکام نے مردم شماری کا عمل شیڈول کے مطابق بند کیا تو کراچی کی آبادی صرف ایک کروڑ 45 لاکھ بتائی گئی۔

رکن قومی اسمبلی نے مزید کہا کہ جب انہوں نے حکام کی توجہ مبذول کرائی کہ کم از کم 36 ہزار عمارتوں کی گنتی نہیں کی گئی تو یہ عمل دوبارہ شروع کیا گیا اور آبادی میں 60 لاکھ کا اضافہ ہوا۔

انہوں نے اس اعداد و شمار پر حیرت کا اظہار کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کی آبادی میں سالانہ 2.5 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے جب کہ کچھ دوسرے شہروں میں آبادی میں 10 سے 15 فیصد اضافہ ہوا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ شاید سندھ میں بچوں کی پیدائش رک گئی ہے۔

صابر قائم خانی نے کہا کہ نادرا کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 2 کروڑ 5 لاکھ سے زائد افراد کے پاس قومی شناختی کارڈ موجود ہیں۔ اسی طرح بالغ آبادی کا پتا لگانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ووٹر لسٹ کی جانچ کی جا سکتی ہے۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کی شاہدہ رحمانی نے کہا کہ سندھ حکومت پہلے ہی مردم شماری کے عمل پر ’تحفظات‘کا اظہار کر چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور ان کی پوری کابینہ ناقص مردم شماری پر آواز اٹھا رہی ہے جس کی بنیاد پر صوبوں کو نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ میں حصہ ملتا ہے۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ اس عمل کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مدد لی جانی چاہیے تھی، ایک ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر بھی آسانی سے آبادی کا ڈیٹا فراہم کر سکتا ہے۔

گوادر ایئرپورٹ پر بھرتیوں کا معاملہ

دوسری جانب بلوچستان کے آزاد ایم این اے اسلم بھوتانی نے ایوان کی توجہ نئے تعمیر ہونے والے ہوائی اڈے کے لیے کی گئی حالیہ تقرریوں میں مقامی لوگوں کو شامل نہ کرنے پر اپنے حلقے میں ہونے والے احتجاج کی طرف مبذول کرائی۔

اسلم بھوتانی نے کہا کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں گوادر کے نئے تعمیر ہونے والے ہوائی اڈے کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر کی سطح سے لے کر صفائی کرنے والوں تک مختلف آسامیوں پر 35 افراد کو تعینات کیا گیا ہے لیکن ان میں سے صرف تین مقامی تھے اور انہیں بھی نچلے عہدوں پر تعینات کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں نے اس ’امتیازی فعل‘ پر پہلے دن گوادر میں احتجاج کیا تھا، انہوں نے کہا اور ڈپٹی اسپیکر سے کہا کہ وہ وزیر ہوا بازی کو اس معاملے پر ایوان کو بریف کرنے کی ہدایت کریں۔

عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے ایم این اے، بزرگ سیاستدان نواب یوسف تالپور نے تاریخی 1991 کے پانی کے معاہدے پر ’عمل درآمد نہ ہونے‘ کی وجہ سے سندھ میں پانی کی قلت پر تشویش کا اظہار کیا۔

پانی کی قلت کی طرف ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ کے ساتھ جو ’زیادتی‘ ہو رہی ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔

یوسف تالپور جو بیمار ہونے کے باعث ویل چیئر پر ایوان میں موجود تھے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ کو اس کے حصے میں 51 فیصد کمی کا سامنا ہے جب کہ پنجاب کو پانی کی 36 فیصد کمی کا سامنا ہے۔

انہوں نے پنجاب سے کہا کہ وہ بڑے بھائی کی طرح کام کرے اور یہ امتیاز ختم ہونا چاہیے’۔

تبصرے (0) بند ہیں