لاہور ہائی کورٹ نے صحافی عمران ریاض کے والد کو پنجاب پولیس کی خصوصی ورکنگ کمیٹی میں اپنے تحفظات بیان کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

لاہور ہائی کورٹ میں صحافی عمران ریاض کی بازیابی کے لیے والد کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت ہوئی، جہاں عدالت نے عمران ریاض کے والد کو ورکنگ کمیٹی میں جاکر اپنے تحفظات بیان کرنے کی ہدایت کی۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور کہا کہ عمران ریاض کی بازیابی کی کوشیش جاری ہیں، آئی جی پنجاب نے مجھے کہا ہے کہ آپ معاونت کریں اور عمران ریاض کے والد کو کہا ہے کہ جو ورکنگ کمیٹی بنائی ہے وہ بھی اس میں شامل ہوں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عمران ریاض پاکستان کے نامور صحافی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزارت دفاع کے پاس معلومات ہے جو شئیر کرنا چاہتے ہیں جس پر وزارت دفاع کے نمائندے نے کہا کہ ہم سب ایک پیج پر ہیں اور کوششیں جاری ہیں۔

صحافی عمران ریاض کے وکیل نے کہا کہ ہمارا صبر جواب دے رہا ہے۔

چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے استفسار کیا کہ مجھے کسی سے خوف نہیں ہے، میں اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا۔

انہوں نے کہا کہ میرے لیے اپنی دکان نہ چمکائیں، آپ نے جو باتیں کرنی ہیں کریں میری فکر آپ چھوڑ دیں۔

لاہور ہائی کورٹ نے صحافی عمران ریاض کے والد کو ورکنگ کمیٹی میں اپنے تحفظات بیان کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز صحافی عمران ریاض کی بازیابی کے حوالے سے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اور تمام پولیس یونٹس کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے پنجاب پولیس کے خصوصی ورکنگ گروپ کا ایک اہم اجلاس ہوا تھا۔

ایڈیشنل آئی جی آپریشنز سلطان چوہدری کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں سی ٹی ڈی، اسپیشل برانچ اور حساس اداروں کے افسران نے شرکت کی تھی۔

ایک پولیس افسر نے کہا کہ اجلاس میں متعلقہ پولیس افسران نے عمران ریاض کی پراسرار گمشدگی کے حوالے سے خفیہ رپورٹس پیش کیں اور انہوں نے پولیس کی متعلقہ ونگز اور سیکشنز کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کی پیش رفت کا جائزہ لیا۔

اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ صحافی عمران ریاض کی بازیابی کے لیے سی ٹی ڈی پنجاب کی طرف سے پیش کی گئی خفیہ رپورٹس میں نشاندہی کیے گیے علاقوں میں سرچ آپریشنز کا آغاز کیا جائے گا۔

پولیس حکام نے کہا کہ عمران ریاض سے متعلق معلومات کا تبادلہ کرنے کے لیے پنجاب پولیس کا ورکنگ گروپ وزارت دفاع سے رابطے میں ہے۔

عمران ریاض خان گرفتاری کیس

خیال رہے کہ 26 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے اینکرپرسن عمران ریاض کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر جاری تحریری حکم میں کہا گیا تھا کہ تمام ایجنسیاں مل کر ان کو بازیاب کرکے 30 مئی کو عدالت میں پیش کریں۔

عدالت نے کہا تھا کہ وزارت دفاع کی جانب سے عدالت میں کوئی پیش نہیں ہوا اور نہ ہی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی جبکہ پولیس نے مغوی کی بازیابی کے لیے 3 سے 4 دن کا مزید وقت مانگا ہے۔

اس سے قبل 19 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے اینکر پرسن عمران ریاض کی بازیابی سے متعلق کیس میں پولیس کو (20 مئی) تک پیش رفت سامنے لانے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے عمران ریاض کے والد محمد ریاض کی درخواست پر سماعت کی تھی اور اس دوران ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عدالت کے روبرو پیش ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے عمران ریاض کی بازیابی کے لیے پولیس کے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس نے تو ابھی تک کچھ نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے ڈی پی او کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے ایک سب انسپکٹر تعینات کردیا باقی آپ نے کہا جاؤ موج کرو۔

اس سے قبل 17 مئی کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سیالکوٹ کے ڈی پی او کو اینکر عمران ریاض خان کو 48 گھنٹوں میں پیش کرنے کے حکم کے ایک روز بعد سٹی پولیس نے نامعلوم افراد اور پولیس اہلکاروں کے خلاف ان کے اغوا کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔

عمران ریاض خان کے والد محمد ریاض کی مدعیت میں لاہور کے تھانہ سول لائنز میں تعزیرات پاکستان کی سیکشن 365 کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرلی گئی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ اینکرپرسن کو پولیس اہلکاروں نے گزشتہ ہفتے سیالکوٹ ایئر پورٹ سے گرفتار کیا اور اس کے بعد سیالکوٹ جیل منتقل کر دیا گیا۔

درخواست گزار نے کہا تھا کہ گرفتاری کے وقت میرے بیٹے کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں تھا اور انہیں غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا اور اس دوران اہل خانہ سے بھی ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

یاد رہے کہ 11 مئی کو گرفتاری کے بعد عمران ریاض خان کے بارے میں معلومات نہیں ہیں، انہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد جلاؤ گھیراؤ اور کشیدگی کے دوران حراست میں لیا گیا تھا، ان کے علاوہ بھی چند صحافیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں