ایران نے اپنے پہلے ہائپرسونک بیلسٹک میزائل ’فتاح‘ کی رونمائی کردی

06 جون 2023
رپورٹ کے مطابق فتاح کی تیز رفتار15 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہے—فوٹو:رائٹرز
رپورٹ کے مطابق فتاح کی تیز رفتار15 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہے—فوٹو:رائٹرز

ایران نے اپنے پہلے مقامی طور پر تیار کردہ ہائپرسونک بیلسٹک میزائل ’فتّاح‘ کی رونمائی کردی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی خبر کے مطابق ایرانی سرکاری نیوز ایجنسی ’ارنا‘ نے ہائپرسونک بیلسٹک میزائل کی رونمائی کی خبر کو رپورٹ کیا۔

ایران کی جانب سے ہائپرسونک بیلسٹک میزائل کی رونمائی تہران کی میزائل صلاحیتوں کے بارے میں مغربی ممالک کے خدشات کو مزید بڑھا سکتا ہے۔

ایران کے سرکاری میڈیا نے ’فتّاح‘ نامی میزائل کی تصویریں شائع کیں، میزائل کی یہ تصاویر ایک تقریب کے دوران لی گئی تھیں جس میں صدر ابراہیم راہیسی اور ایران کے ایلیٹ ریولوشنری گارڈز کور کے کمانڈروں نے شرکت کی۔

ایران کے سرکاری میڈیا نے پاسداران انقلاب کی فضائیہ کے سربراہ امیر علی حاجی زادہ کے حوالے سے بتایا کہ ’فتّاح‘ ہائپرسونک میزائل 14 سو کلومیٹر رینج میں ہدف کو نشانہ بناسکتا ہے اور یہ تمام دفاعی نظاموں کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ہائپرسونک میزائل آواز کی رفتار سے کم از کم پانچ گنا تیز تر پرواز کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں روکنا مشکل ہو جاتا ہے، گزشتہ سال اسلامی جمہوریہ نے کہا تھا کہ اس نے ایک ہائپر سونک بیلسٹک میزائل بنایا ہے۔

سرکاری ٹی وی نے کہا کہ ایران کا ’فتّاح‘ میزائل دشمن کے جدید میزائل شکن نظام کو نشانہ بنا سکتا ہے اور یہ میزائل سازی کے میدان میں بہت بڑی کامیابی ہے۔

ایران کے سرکاری ٹی وی نے کہا کہ یہ میزائل اسرائیل کے آئرن ڈوم سمیت امریکا اور صیہونی حکومت کے جدید ترین اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم کو چکما دے سکتا ہے۔

اس نے مزید رپورٹ کیا کہ ’فتّاح‘ کی رفتار15 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہے۔

امریکی اور یورپی ممالک کی مخالفت کے باوجود اسلامی جمہوریہ نے کہا کہ وہ اپنے دفاعی میزائل پروگرام کو مزید جدت دے گا، تاہم مغربی عسکری تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران بعض اوقات اپنی میزائل صلاحیتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔

ایران کے بیلسٹک میزائلوں کے بارے میں خدشات نے 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 6 بڑی طاقتوں کے ساتھ تہران سے کیےگئے 2015 کے جوہری معاہدے کو ختم کرنے کے فیصلے میں اہم کردار ادا کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران پر دوبارہ امریکی پابندیاں عائد کردی تھیں جب کہ تہران نے پہلے سے پابندی والے جوہری پروگرام کو دوبارہ شروع کر دیا تھا۔

ایران کی جانب سے پروگرام بحالی نے امریکی، یورپی ممالک اور اسرائیل کے خدشات کو بحال کر دیا تھا کہ ایران ایٹم بم بنا سکتا ہے، ایران اس طرح کے عزائم کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے۔

ایران اور امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے درمیان جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے بالواسطہ بات چیت گزشتہ ستمبر سے تعطل کا شکار ہے۔

اسرائیل جسے ایران تسلیم نہیں کرتا، وہ عالمی طاقتوں کی جانب سے تہران کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششوں کی مخالفت کرتا ہے اور طویل عرصے سے دھمکی دیتا رہا ہے کہ سفارت کاری ناکام ہونے کی صورت میں فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں