• KHI: Maghrib 6:15pm Isha 7:30pm
  • LHR: Maghrib 5:42pm Isha 7:03pm
  • ISB: Maghrib 5:47pm Isha 7:09pm
  • KHI: Maghrib 6:15pm Isha 7:30pm
  • LHR: Maghrib 5:42pm Isha 7:03pm
  • ISB: Maghrib 5:47pm Isha 7:09pm

حکومت کا یکم جولائی سے ملک بھر میں دکانیں، مارکیٹیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ

شائع June 6, 2023
احسن اقبال نے کہا امید کرتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں توانائی بچت کا جو پیکج منظور ہوا ہے، اس پر عمل درآمد کروائیں گی — فوٹو: ڈان نیوز
احسن اقبال نے کہا امید کرتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں توانائی بچت کا جو پیکج منظور ہوا ہے، اس پر عمل درآمد کروائیں گی — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی حکومت نے یکم جولائی سے ملک بھر میں دکانیں، کمرشل ایریاز رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کا اجلاس ہوا، اجلاس میں پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ شریک ہوئے، جبکہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔

قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے توانائی پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ایک بار پھر 10 لاکھ بیرل یومیہ پیداوار کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے خطرہ ہے کہ سال کے آخر تک تیل کی قیمتیں ایک بار پھر 100 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایندھن اور تیل پر انحصار کریں گے تو ہماری معیشت اسی طرح خطرات میں گھری رہے گی، لہٰذا حکومت کوشش کر رہی ہے کہ دو طرح کے اقدامات کیے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک اقدام یہ ہے کہ ہم توانائی کی بچت کریں اور اس کے لیے آج جو کابینہ نے پیکج منظور کیا تھا کہ انرجی کو بچانے کے لیے دکانوں اور کمرشل سینٹرز کو رات 8 بجے بند ہونا چاہیے، اسی طرح جو لائٹس ہیں، جو پرانے بلب ہیں، ان کو ختم کرکے ایل ای ڈی لائٹس کا استعمال کیا جائے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اسی طرح جو گیزرز ہیں، ان کی صلاحیت کو بڑھایا جائے، یہ وہ اقدامات ہیں جن کے ذریعے ہم سالانہ ایک ارب ڈالر کی بچت کرسکتے ہیں، کابینہ نے اس حوالے سے فیصلہ کیا تھا لیکن اس میں صوبائی حکومتیں شریک نہیں تھیں تو آج این ای سی میں ہم اسے دوبارہ اس لیے لے کر گئے کہ وہاں اجلاس میں صوبائی حکومتیں بھی شریک تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اب ہم امید کرتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں توانائی بچت کا جو پیکج منظور ہوا ہے، اس پر عمل درآمد کروائیں گی اور ہم اپنے ملک کے لیے توانائی کی بچت میں اپنا کردار ادا کریں گے تاکہ قیمتی زرمبادلہ کو بچایا جاسکے۔

احسن اقبال نے کہا کہ دیکھیں امریکا، یورپ جیسے بڑے بڑے ممالک جو ہم سے بہت زیادہ خوشحال ہیں، ہم سے بہت زیادہ امیر ہیں، وہ بھی 11، 12 بجے تک کمرشل ایریا کھولنے کی عیاشی برداشت نہیں کرسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ یورپ میں جائیں تو وہاں بھی 6 بجے، 6 بجے نہیں تو حد ہے کہ 8 بجے تک تمام کمرشل ایریاز بند ہوجاتے ہیں، اسی طرح آپ چین چلے جائیں، ملائیشیا، انڈونیشیا میں چلے جائیں، کوئی ہماری طرح کی غیر ذمہ دارانہ طرز زندگی نہیں اپناتا کہ جس میں آپ رات ایک، 2 بجے تک تمام تجارتی مراکز کھلے رکھیں اور اپنے ملک کا قیمتی زرمبادلہ اپنی دکانوں میں بلبوں کی صورت میں چلائیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں گرین انرجی کو فروغ دیں گے جیسے سولر انرجی، ہائیڈرل انرجی اور ونڈ انرجی کے منصوبوں کو فروغ دیا جائے گا اور آئندہ ہم کوئی درآمد کردہ فیول پر توانائی کا کوئی نیا منصوبہ نہیں لگائیں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئےکہا تھا کہ ملک اس وقت سنگین معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے اس لیے توانائی کی بچت کرنے کے لیے شادی ہالز کے اوقات رات 10 بجے اور ریسٹورنٹس اور مارکیٹوں کے اوقات رات 8 بجے تک مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کسی صورت 8 بجے دکانیں بند نہیں کریں گے، آل پاکستان انجمن تاجران

حکومت کے 8 بجے دکانیں بند کرنے کے فیصلہ کے خلاف ردعمل دیتے ہوئے صدر آل پاکستان انجمن تاجران اجمل بلوچ نے کہا کہ حکومت 8 بجے دکانیں بند کرنے کا فیصلہ واپس لے، اس گرمی میں دکانیں رات 8 بجے کسی صورت بند نہیں کریں گے۔

مرکزی میڈیا سیل آل پاکستان انجمن تاجران کی جانب سے جاری بیان میں اجمل بلوچ نے کہا کہ ہر حکومت دکانیں رات 8 بجے بند کرنے کی ناکام پریکٹس کر چکی ہے، گرمی کے موسم میں دن میں کوئی خریداری نہیں ہوتی، گرمی کے موسم میں خریداری صرف رات 8 بجے سے رات 11 بجے تک ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاجر ملک میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی خریدتا ہے، کہاں کی عقل مندی ہے توانائی بچانے کی خاطر معاشی پہیہ روکا جا رہا ہے، حکومت توانائی بچانے کے لیے مفت میں چلنے والی بجلی بند کرے، حکمران اپنے ایئرکنڈیشنز بند کریں ہر گھر کا پنکھا چلے گا، بدقسمتی کی انتہا ہے توانائی بچانے کی بات یا وزیر دفاع کرتا ہے یا وزیر منصوبہ بندی، وزیر توانائی کو چاہیے تاجر نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں۔

وزیر اعظم کی متبادل ذرائع سے بجلی کے منصوبے شروع کرنے کی ہدایت

ادھر وزیرِ اعظم شہباز شریف نے توانائی شعبے کے حوالے سے بجٹ تجاویز پر اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت بھی کی، اجلاس میں وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ محمد آصف، انجینئر خرم دستگیر خان، مریم اورنگزیب، مشیرِ وزیرِ اعظم احد خان چیمہ، وزرائے مملکت ڈاکٹر مصدق ملک، عائشہ غوث پاشا، معاونین خصوصی طارق باجوہ، جہانزیب خان، چیئرمین ایف بی آر، چیئرمین واپڈا اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

وزیرِ تجارت سید نوید قمر، گورنر اسٹیٹ بینک اور معروف صنعتکاروں نے اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔

شہباز شریف نے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کو بجٹ کا حصہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہدایت کی کہ مہنگے درآمدی ایندھن پر انحصار کم کر کے مرحلہ وار متبادل ذرائع سے بجلی کے نئے منصوبے شروع کیے جائیں، بجلی کے لائف لائن اور کم کھپت والے صارفین پر بِلوں کا کم سے کم بوجھ ڈالا جائے۔

اجلاس کو توانائی شعبے کی اصلاحات اور بجٹ 24-2023 میں اس حوالے سے شامل کیے گئے منصوبوں پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

اجلاس کو ملک گیر جاری سرکاری عمارتوں کی سولرائزیشن کے منصوبے پر پیش رفت سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ سرکاری عمارتوں کی سولرائزیشن کی بِڈنگ کے چار مرحلے مکمل کیے جا چکے جس کے بعد متعدد عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جا رہا ہے۔

اجلاس کو برآمدی صنعتوں کو بلاتعطل گیس اور بجلی فراہم کرنے کے حوالے سے اقدامات سے بھی تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔

وزیرِ اعظم نے ان اقدامات کو حتمی شکل دے کر بجٹ میں شامل کرنے کی ہدایات جاری کیں۔

انہوں نے ہدایت کی کہ آئندہ بجٹ میں لائن لاسز اور بجلی چوری کے سدباب کے لیے مؤثر اقدامات شامل کیے جائیں، آئندہ بجٹ میں وِنڈ اور شمسی توانائی کے منصوبے شامل کیے جائیں، پاور ٹرانسمیشن کے منصوبوں کی جلد تکمیل یقینی بنائی جائے، لائن لاسز اور بجلی کی چوری کے سدباب کے لیے آئندہ بجٹ میں ٹرانسفارمر میٹرنگ منصوبے کو شامل کیا جائے۔

شہباز شریف نے ہدایت کی کہ ملک بھر میں جاری سولرائزیشن کے منصوبوں کی رفتار کو تیز کیا جائے، برآمدی صنعتوں کی ترجیحی بنیادوں پر توانائی کی ضروریات پوری کی جائیں، بجٹ میں پن بجلی کے جاری منصوبوں کی جلد تکمیل کو ترجیح دی جائے۔

کارٹون

کارٹون : 4 اکتوبر 2024
کارٹون : 3 اکتوبر 2024