اقتصادی سروے 23-2022: تباہ کن سیلاب ملکی زراعت کی نمو بہا کر لے گیا

اپ ڈیٹ 09 جون 2023
رپورٹ کے مطابق تباہ کن سیلاب نے خریف کی فصلوں کو نقصان پہنچایا—تصویر: آن لائن/ملک سجاد
رپورٹ کے مطابق تباہ کن سیلاب نے خریف کی فصلوں کو نقصان پہنچایا—تصویر: آن لائن/ملک سجاد

معیشت کے تینوں اہم شعبے وسیع مارجن سے اپنے اہداف کو پورا کرنے میں ناکام رہے، صنعت کو نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ یہ زراعت اور خدمات کے مقابلے میں تقریباً 3 فیصد سکڑ گئی، جو ایک سال کے اتار چڑھاؤ میں بھی مثبت رہنے میں کامیاب رہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صنعتی شعبہ بھی ان تینوں میں واحد شعبہ تھا جس کا حصہ مجموعی ملکی پیداوار میں ایک سال پہلے کے 19.1 فیصد سے 18.5 فیصد تک سکڑ گیا۔

اس کے برعکس جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 22.6 فیصد سے تھوڑا سا بڑھ کر 22.9 فیصد ہو گیا۔

اسی طرح معیشت میں شراکت کے لحاظ سے سب سے بڑے شعبے خدمات کا جی ڈی پی میں حصہ 58.3 فیصد سے بڑھ کر 58.6 فیصد ہو گیا۔

زراعت

پاکستان کے اقتصادی سروے نے کہا کہ تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے گزشتہ سال 4.27 فیصد کی نمو کے مقابلے میں رواں مالی سال کے دوران زرعی پیداوار میں معمولی 1.55 فیصد اضافہ ہوا،جس کے نتیجے میں تمام ضروری اشیائے خورونوش کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔

زرعی شعبے میں ہونے والے کل نقصان کا تخمینہ تقریباً 8 کھرب روپے ہے۔

سروے رپورٹ میں کہا گیا کہ نومبر سے اپریل تک رہنے والے ربیع کا سیزن سندھ اور بلوچستان کے کسانوں کے لیے مشکل رہا، جو کہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔

زرعی شعبے کے نقطہ نظر کے حوالے سے سروے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں کسانوں اور اس شعبے کے لیے مختلف مراعات کی وجہ سے آنے والے برسوں میں فصل کی بہتر پیداوار کی توقع ہے۔

رپورٹ کے مطابق تباہ کن سیلاب نے خریف کی فصلوں کو نقصان پہنچایا، جو گرمیوں میں بوئی گئی تھیں اور اہم فصلوں میں کمی 3.2 فیصد رہی۔

چاول کی پیداوار 93 لاکھ 20 ہزار ٹن سے کم ہو کر 7.32 73 لاکھ 20 ہزار ٹن رہ گئی، جو کہ ایک سال میں 21.5 فیصد کم ہے، اسی طرح کپاس کی پیداوار ایک سال قبل 83 لاکھ 30 ہزار گانٹھوں سے 41 فیصد گھٹ کر 49 لاکھ 10ہزار گانٹھوں پر آگئی۔

تاہم گنے کی پیداوار گزشتہ سال کے 8 کروڑ 86 لاکھ 50 ہزار ٹن کے مقابلے میں 9 کروڑ 11 لاکھ ٹن ریکارڈ کی گئی یعنی 2.8 فیصد بڑھ گئی، مکئی کی پیداوار گزشتہ سال کے 95 لاکھ 20 ہزار ٹن کے مقابلے میں 6.9 فیصد بڑھ کر ایک کروڑ ایک لاکھ 80 ہزار ٹن ہو گئی۔

لائیو اسٹاک کا شعبہ زراعت میں سب سے بڑا حصہ ڈالنے والے کے طور پر ابھرا، جس کی مالی سال 2023 کے دوران زرعی قدر 62.7 فیصد اور قومی جی ڈی پی کا 14.4 فیصد حصہ رہا۔

رواں مالی سال کے دوران مویشیوں کی مجموعی ویلیو ایڈیشن بڑھ کر 55 کھرب 93 ارب روپے ہو گئی یوں گزشتہ مالی سال کے 53 کھرب 90 ارب روپے سے 3.8 فیصد بڑھ گئی۔

صنعت

صنعتی شعبہ چار اہم ذیلی شعبوں پر مشتمل ہے: کان کنی، مینوفیکچرنگ، بجلی گیس اور پانی کی فراہمی، اور تعمیرات، جو نقصان کے ساتھ2.94 فیصد تک محدود رہا۔

زیادہ تر سکڑاؤ بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ میں 8 فیصد کمی کی وجہ سے آیا، صنعتی شعبے میں اس کا سب سے بڑا حصہ ہے، اس کے برعکس بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ نے گزشتہ دو سالوں میں 11 فیصد سے زیادہ شرح نمو دیکھی تھی۔

تاہم، جن چار شعبوں میں ترقی ہوئی ان میں ملبوسات، چمڑے کی مصنوعات، فرنیچر، اور دیگر (جیسے فٹ بال) شامل ہیں۔

کان کنی کا شعبہ جولائی تا مارچ کے دوران منفی 4.4 فیصد پر رہا جبکہ گزشتہ سال اس میں 7 فیصد کمی ہوئی تھی، اس شعبے کی ترقی میں ناکافی انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی کی کمی اور ناکافی مالی وسائل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

جولائی تا مارچ کے دوران اہم معدنیات مثلاً کوئلہ، ڈولومائٹ، بیریم سلفیٹ، چونے کے پتھر اور چٹانی نمک کی پیداوار میں بالترتیب 17.6فیصد، 42.2 فیصد، 53.6 فیصد، 10.6 فیصد اور 12.4 فیصد کا اضافہ ہوا۔

تاہم، کچھ کی پیداوار میں کمی ہوئی جن میں قدرتی گیس منفی9.3فیصد، خام تیل منفی10.2فیصد، کرومائٹ منفی 12.6 فیصد، میگنیسائٹ منفی 50 فیصد، جپسم منفی 5 فیصد، سلفر منفی 25 فیصد، سنگ صابن منفی 43.2 فیصد، اور لوہا منفی51.6 فیصد شامل ہیں۔

خدمات

خدمات کے شعبے میں نمو 5.1 فیصد کے بڑے مارجن سے ہدف تک نہ پہنچ کر 0.86 فیصد رہی جس کاگزشتہ کئی سال سے جی ڈی پی میں تقریباً 58 فیصد کا سب سے بڑا حصہ تھا، تاہم صنعتوں میں ملا جلا رجحان رہا۔

30.7 فیصد خدمات اور کل جی ڈی پی کا 18 فیصد بننے والی ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ انڈسٹری میں فصلوں کی پیداوار میں 4.57 فیصد کی منفی نمو، بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ میں 8 فیصد کی کمی، اور درآمدات میں 12.68 فیصد کی منفی نمو کی وجہ سے 4.46 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔

اس کے برعکس، ٹرانسپورٹیشن اور اسٹوریج، خدمات کے دوسرے بڑے شعبے میں 4.73 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ رہائش اور خوراک کی خدمات کی سرگرمیوں میں بھی 4.11 فیصد اضافہ ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں