اقتصادی سروے 23-2022: تعلیم پر جی ڈی پی کا صرف 1.7 فیصد خرچ کیا گیا

اپ ڈیٹ 09 جون 2023
لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں زیادہ تعداد میں تعلیم سے محروم ہیں۔—فائل فوٹو: اے پی
لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں زیادہ تعداد میں تعلیم سے محروم ہیں۔—فائل فوٹو: اے پی

ایک ایسے وقت میں جب 2 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ بچے اسکولوں سے باہر ہیں حکومت نے گزشتہ سال کے دوران تعلیم پر جی ڈی پی کا صرف 1.7 فیصد خرچ کیا، جبکہ خواندگی کی شرح 62 فیصد سے کچھ زیادہ ریکارڈ کی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں پاکستان اقتصادی سروے کے حوالے سے بتایا گیا کہ ملک میں خواندگی کی شرح 62.8 فیصد ریکارڈ کی گئی جس میں مردوں کی شرح 73.4 فیصد جبکہ خواتین کی 51.9 فیصد ہے۔

سروے میں کہا گیا کہ مالی سال 2022میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مجموعی تعلیمی اخراجات کا تخمینہ جی ڈی پی کا 1.7 فیصد تھا۔

مالی سال 2022 کے دوران تعلیم سے متعلق سرگرمیوں پر اخراجات میں 37.3 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا اور یہ 8 کھرب 2 ارب 20 کروڑ روپے سے بڑھ کر 11 کھرب ایک ارب 17 کروڑ روپے تک پہنچ گئے۔

سروے میں بتایا گیا کہ اسکول نہ جانے والے بچے 32 فیصد ہیں جن میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں زیادہ تعداد میں تعلیم سے محروم ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح بلوچستان میں 47 ، اس کے بعد سندھ میں 44 فیصد، خیبرپختونخوا میں 32 فیصد اور پنجاب میں 24 فیصد ہے۔

سروے میں کہا گیا کہ اسکول سے باہر بچوں کو اسکولوں میں لانے اور تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور نوجوان نسل کو ابتدائی عمر سے ہی مسابقتی بنانے کے لیے بنیادی اور کالج کی تعلیم پر توجہ دی جا رہی ہے۔

سروے میں کہا گیا کہ پاکستان تعلیم کے معیار سے متعلق پائیدار ترقی کے ہدف 4 کو حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہے، جس میں مساوی تعلیم، امتیازی سلوک کا خاتمہ، فراہمی، اور انفراسٹرکچر کی اپ گریڈیشن، پائیدار ترقی کے لیے ہنر مندی کی ترقی، عالمگیر خواندگی،اساتذہ کی تعداد اور قابلیت میں اضافہ شامل ہیں۔

ہدف 4 پر پاکستان نے اب تک جو پیش رفت حاصل کی ہے وہ پرائمری، لوئر اور اپر سیکنڈری تعلیم کی شرح بالترتیب 67 فیصد، 47 فیصد اور 23 فیصد ہے۔

سال 21-2020 کے دوران قومی سطح پر 7.1 ہزار ہائر سیکنڈری اسکولز میں ایک لاکھ 58 ہزار400 اساتذہ کام کر رہے تھے۔

اس کے علاوہ اس عرصے میں میں اعلیٰ ثانوی تعلیم میں طلبا کے مجموعی اندراج میں سال 2019 کے 22لاکھ 20 ہزار کے مقابلے 4.5 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا جس کے بعد یہ تعداد 23 لاکھ 20 ہزار ہوگئی تھی۔

سروے کے مطابق حکومت کے منصوبوں اور اقدامات کا مقصد ’یکساں نصاب‘ متعارف کرانا، اساتذہ کی استعداد کار میں اضافہ، اسکولوں اور کالجوں کے قیام، تزئین و آرائش اور اپ گریڈیشن، مذہبی تعلیم کو مرکزی دھارے میں لانا، اسکل ڈیولپمنٹ اور معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان، خاص طور پر نوجوانوں میں آگاہی کو فروغ دینا ہے۔

سروے میں کہا گیا کہ ’پاکستان کی خواندگی، انرولمنٹ اور دیگر تعلیمی اشاریے بتدریج بہتر ہو رہے ہیں لیکن تمام اسٹیک ہولڈرز، خاص طور پر نجی شعبے کی فعال شراکت کے بغیر تعلیم کے شعبے میں بہتری حاصل نہیں کی جا سکتی‘۔

اس میں کہا گیا ہے کہ محدود وسائل اور مالی مجبوریوں کے پیش نظر، تعلیم کے شعبے کو دی جانے والی مستعدی کے مطابق نہیں ہے جیسا کہ ہونا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں