علی وزیر کی گرفتاری پر اراکین اسمبلی سراپا احتجاج، فوری رہائی کا مطالبہ

شمالی وزیرستان کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ایوان کی توجہ علی وزیر کی گرفتاری کی جانب مبذول کرائی— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
شمالی وزیرستان کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ایوان کی توجہ علی وزیر کی گرفتاری کی جانب مبذول کرائی— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

قومی اسمبلی میں پیر کو بجٹ پر بحث کے دوران جنوبی وزیرستان کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی گرفتاری کی بازگشت سنائی دی، ساتھی اراکین قانون سازوں نے گرفتاری پر احتجاج کیا اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تاہم اسپیکر اور دیگر وزرا پر اس واقعے کا کچھ خاص اثر نہ پڑا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے علی وزیر کو جنوبی وزیرستان کے ضلع تمتیل چیک پوسٹ سے حراست میں لیا اور انہیں پیر کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

قومی اسمبلی میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کے ساتھی اور شمالی وزیرستان کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ایوان کی توجہ علی وزیر کی گرفتاری کی جانب مبذول کرائی۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکام نے اسپیکر سے اجازت لیے بغیر رکن قومی اسمبلی کو گرفتار کر کے قومی اسمبلی کے قواعد کی خلاف ورزی کی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں ترمیم شدہ قوانین کے تحت اگر رکن اسمبلی کو جاری سیشن کے دوران گرفتار کیا جائے تو اسپیکر سیشن کے دوران گرفتار رکن کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے پابند تھے۔

محسن داوڑ نے کہا کہ رکن اسمبلی کو پشاور میں درج ایک مقدمے کے سلسلے میں چیک پوسٹ پر گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں ابھی تک عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

یہ مسئلہ دیگر قانون سازوں نے بھی اٹھایا، پاکستان پیپلز پارٹی کے قادر مندوخیل نے رکن قومی اسمبلی کی بار بار گرفتاری پر حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسپیکر سے علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا کہا۔

اس معاملے پر بات کرتے ہوئے جے یو آئی(ف) کے جمال الدین نے موجودہ حکومت کے دور کو پی ٹی آئی کے سابقہ دور حکومت جیسا قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر رکن قومی اسمبلی کو فوری طور پر رہا نہ کیا گیا تو علاقے کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

تاہم، حکومت کی طرف سے کسی نے بھی علی وزیر کی گرفتاری پر ایک لفظ بھی نہیں بولا اور عموماً ایوان کے ارکان کی طرف سے پوائنٹس آف آرڈر کے ذریعے اٹھائے گئے تقریباً ہر معاملے پر اپنی رائے دینے والے اسپیکر نے بھی اس بار خاموش رہنے کو ترجیح دی۔

جمعہ کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے سائبر کرائم سرکل نے وزیر اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کو بغاوت کے الزام میں طلب کیا تھا۔

ایف آئی اے نے شمالی وزیرستان سے حضرت نعیم، بنوں سے عبدالصمد اور جنوبی وزیرستان سے عالم زیب محسود کو بھی سائبر کرائم سرکل کے سامنے مسلح افواج کے خلاف لوگوں کو اکسانے میں ملوث ہونے پر پیش ہونے کے لیے نوٹس جاری کیے تھے۔

علی وزیر کو دو سال سے زائد عرصے تک قید رکھنے کے بعد اس سال 14 فروری کو کراچی کی سینٹرل جیل سے رہا کیا گیا تھا، قانون ساز 31 دسمبر 2020 سے بغاوت کے مختلف مقدمات میں گرفتار ہونے کے بعد کراچی کی جیل میں بند تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں