شہریوں کے ملٹری ٹرائل کا کیس: 9 مئی کے بعد گرفتار ہونے والے تمام افراد کا ڈیٹا طلب

اپ ڈیٹ 22 جون 2023
جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی بھی 7 رکنی بینچ کا حصہ ہیں — فوٹو: سپریم کورٹ پاکستان ویب سائٹ
جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی بھی 7 رکنی بینچ کا حصہ ہیں — فوٹو: سپریم کورٹ پاکستان ویب سائٹ

فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کے بعد گرفتار ہونے والے تمام افراد کا ڈیٹا طلب کرلیا۔

مذکورہ درخواستوں پر سماعت کے لیے تشکیل دیے گئے 9 رکنی لارجر بینچ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کے علیحدہ ہونے کے بعد 7 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔

7 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موسم گرما کی تعطیلات چل رہی ہیں اس لیے تمام فریقین دلائل مختصر رکھیں، چھٹیوں میں بھی کچھ بینچ صوبائی رجسٹریوں میں جاتے تھے، ان ساری باتوں کو ذہن میں رکھیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کو اس بینچ پر اعتراض ہے تو پہلے بتا دیں، اعتزاز احسن نے کہا کہ کسی کو اس بینچ پر اعتراض نہیں، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ہمیں بھی بینچ پر اعتراض نہیں۔

اس دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پر آگئے، انہوں نے کہا کہ ہماری درخواست پر کچھ اعتراضات لگائے گئے تھے، جواب میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست میں کچھ سیاسی نوعیت کی استدعائیں موجود تھیں، ابھی ہم وہ سننا نہیں چاہتے، ابھی فوکس ملٹری کوٹس ہیں۔

شعیب شاہین نے کہا کہ ہماری درخواست بھی ساتھ ہی رکھ لیں، ہو سکتا ہے ملٹری کورٹس کے علاوہ دیگر استدعائیں ہم نہ مانگیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپس میں مشاورت کر کے دیکھیں گے۔

دریں اثنا اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 245 نافذ ہونے کے بعد ہائی کورٹس کا 199 کا اختیار ختم ہوگیا ہے، اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ فوج طلبی کا وہ نوٹی فکیشن واپس ہو چکا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا کہ 9 مئی کے ناقابل تردید شواہد ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں اس لیے ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا؟

لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ جی پریس ریلیز میں یہی کہا گیا، دریں اثنا انہوں نے عدالت میں پریس ریلیز پڑھ کے سنا دی۔

چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں، اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ متعلقہ پیراگراف میں کہا گیا کہ ذمہ داروں کو آرمی ایکٹ کے تحت جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چل رہا ہے؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ بالکل سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہوچکا ہے، قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیے میں ناقابل تردید شواہد موجود ہونےکا کہا گیا، سویلینز کا ٹرائل یا تو کوئی کرنل کرے گا یا پھربریگیڈیئر۔

جسٹس منصور علی نے استفسار کیا کہ یہ جو آپ پڑھ رہے ہیں اس میں آئی ایس پی آرکا نام کہاں لکھا ہے؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ آئی ایس پی آر کا ہی جاری کردہ اعلامیہ ہے، کابینہ نے آئی ایس پی آر کے اعلامیے کی کھل کر توثیق کی، ملک کی تمام ملٹری قیادت نے بیٹھ کر فیصلہ دے دیا کہ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ دستاویز ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، فارمیشن کمانڈر نے کہہ دیا ناقابل تردید شواہد ہیں تو ایک کرنل اب ٹرائل میں کیا الگ فیصلہ دے گا؟ یہ نہیں کہتا کہ 9 مئی کے ذمہ داروں کو چھوڑ دیا جائے، کہیں بھی کسی بھی حملے کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ سب بیانات ہیں ہمیں دکھائیں کہ ٹرائل کہاں شروع ہوا، دریں اثنا لطیف کھوسہ نے انسداد دہشت گردی عدالتوں سے ملزمان کی حوالگی کے فیصلے پڑھنا شروع کردیے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت سے درخواست کر کے سویلینز کے کیسز فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کا کہا گیا، جس نے بھی تنصیبات پر حملہ کیا ان سے میری کوئی ہمدردی نہیں ہے، جس نے جو جرم کیا ہے اس کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے، لاہور میں جناح ہاؤس کے بارے میں میں نے کبھی نہیں سنا، اس گھر کو کور کمانڈر ہاؤس کہیں تو بہتر ہوگا۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا اپ نے اپنے دستاویز میں کوئی ایف آئی آر شامل کی ہے جو ملٹری کورٹس کو بھیجی گئی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ جو لوگ متاثرہ ہیں کیا ان میں سے کسی نے سپریم کورٹ سے براہ راست رجوع کیا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے پاس اس قسم کی معلومات نہیں ہیں۔

دوران سماعت وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں نے ایک درخواست دائر کی مگر فی الحال کسی متاثرہ شخص نے ملٹری کورٹس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ جس قانون کے تحت فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونا ہے کیا اس قانون کو کسی نے چیلنج کیا؟

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹس سے متعلق قانون چیلنج ہوسکتا ہے؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے خلاف مقدمہ کون سنے گا، سپریم کورٹ کو تو لوگ مان ہی نہیں رہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں آرمی ایکٹ اور ملٹری کورٹس کے رولز بتائیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں ہے۔

حقائق نہیں دیں گے تو کیسے آگے چلیں گے، جسٹس یحییٰ آفریدی

جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ ملٹری ٹرائل کے لیے کتنے لوگوں کے نام گئے ہیں وہ بتادیں، لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ہمیں علم ہے کہ کہیں سے 20 تو کہیں سے 10 افراد کے مقدمات بھیجے گئے ہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ عمومی طور پر بتا رہے ہیں، اگر حقائق نہیں دیں گے تو کیسے آگے چلیں گے؟

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ جو تمام مقدمات بنائے گئے ان کو سننے کا اختیار تو انسداد دہشت گردی عدالت کو پہلے ہی سے حاصل ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارا یہی مؤقف ہے کہ کیسز انسداد دہشت گردی عدالت میں چلیں فوجی عدالتوں میں نہیں، 9 مئی کے واقعات کی آڑ میں 9، 10 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہ رہے ہیں کہ صرف حقائق میں رہیں، جو مقدمات درج ہوئے ان میں متعدد نام ہیں، مقدمات میں کچھ پولیس اہلکاروں کے نام کیوں شامل کیے گئے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کتنے لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور کتنے افراد گرفتار ہوئے؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ 10 مئی کو پہلے 50 افراد گرفتار ہوئے، پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی، مراد سعید، فرخ حبیب کے خلاف مقدمات درج ہوئے، ان مقدمات میں عمران خان کا نام ہے لیکن وہ عمران خان نیازی نہیں ہے۔

لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ پورے ملک سے 10 مئی کو 4 ہزار افراد گرفتار ہوئے، کسی فرد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج نہیں ہیں، ہم تو اس لیے آئے کہ ہمیں 25 کروڑ عوام کی فکر ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے جو عدالت میں سویلینز کے کیس فوجی عدالتوں میں منتقلی کی درخواست دی وہ دکھا دیں، مجسٹریٹ یا عدالت کو درخواست دی جاتی ہے کہ ان افراد کو ہم آرمی ایکٹ کے ٹرائل میں لے جانا چاہتے ہیں، عدالت نے کسی بنیاد پر تو مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کی اجازت دی ہو گی۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر آرمی ایکٹ سویلینز پر لاگو نہیں ہوتا تو کیسے انسداد دہشت گردی عدالت نے مقدمات فوجی عدالت میں منتقل کرنے دیے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کون سے قانون یا وجہ کے تحت سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کی اجازت دی گئی؟ بیانات سے نکل کر اصل قانون کیا ہے وہ بھی بتا دیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے درخواست کے ساتھ جو چیزیں لگائیں وہ مکمل نہیں، لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ میں اور اعتزار احسن ملزم تو نہیں ہم 25 کروڑ عوام کی فکر میں آئے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا اے ٹی سی میں ملزمان کی ملٹری کو حوالگی سے پہلے کوئی بحث ہوئی؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ کئی جگہوں پر نہ ملزمان عدالت میں موجود تھے نہ ان کے وکیل۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ تو کیا پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ ایسے فیصلے کو چیلنج نہیں کرے گا؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ میرا کیس یہ ہے کہ پرائیویٹ لوگوں کا کیس ملٹری کورٹس میں نہیں چل سکتا۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیس اے ٹی سی میں چل سکتا ہے؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ جی, اے ٹی سی کورٹ میں چل سکتا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ملٹری کورٹس کو تو حوالگی ان کے اپنے افراد کی ہو سکتی ہے، سویلین کی حوالگی تو نہیں ہو سکتی؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ تو یہی ہمارا کیس ہے کہ سویلین کے ٹرائل ملٹری کورٹ نہیں کر سکتی۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا اے ٹی سی جج فیصلہ دے سکتا ہے کہ کیس آرمی ایکٹ کا ہے یا نہیں، سویلین کو ملٹری کورٹس میں بنیادی حقوق کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کا آئینی حق ہوتا ہے، بنیادی حقوق کا معاملہ سپریم کورٹ لایا جا سکتا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس وقت کم ہے، 10 منٹ میں دلائل مکمل کریں، آپ کہتے ہیں ملٹری کورٹس کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہوتا، آپ کہہ رے ہیں کہ ملٹری کورٹس کا فیصلہ پبلک نہیں ہوتا، اس کی وجوہات واضح نہیں ہوتی، آپ آگے چلیں اور دلائل ختم کریں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کو سیکشن 549 تھری کے تحت اے ٹی سی نے ملٹری حکام کے حوالے کیا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئی ایم سوری, مگر وزارت قانون کے ویب سائٹ پر 549 کی سب سیکشن تھری ہے ہی نہیں۔

ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر حکم امتناع کی درخواست مسترد

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کے تحت سزا کم ہے اور عام قانون میں سزا زیادہ ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ وہ پوچھ رہے ہیں کہ آپ ادھر آنا چاہتے ہیں یا ادھر جانا چاہتے ہیں، ان ریمارکس پر عدالت میں قہقہے بلند ہوگئے۔

دریں اثنا سردار لطیف کھوسہ نے ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا کردی، انہوں نے کہا کہ ہمارے گھروں میں حملے ہورہے ہیں۔

تاہم چیف جسٹس نے یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ ریلیکس کریں جذباتی نہ ہوں، ہر چیز کا جواب حکم امتناع سے نہیں دیا جاتا، سویلین عدالت ہو یا فوجی عدالت ملزمان کو وکلا مقرر کرنے کا حق حاصل ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سنیں تو صحیح ہم کیا کرنے لگے ہیں، وکلا کو ہراساں کیا جا رہا ہے، ایک وکیل کو 6 دن تک اغوا رکھا گیا اور ایک کو تھانے لے گئے، لطیف کھوسہ صاحب کے گھر فائرنگ تک ہو چکی ہے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ہم آپ کو سنے بغیر فیصلہ نہیں دیں گے، 4 ہزار سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، عورتوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، عدالت کو بتایا جائے کہ سویلین اور ملٹری کسڈی میں کتنے لوگ ہیں۔

دریں اثنا سپریم کورٹ نے 9 مئی کے واقعات کے بعد گرفتار ہونے والے تمام افراد کا ڈیٹا طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی۔

سماعت کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ 2 سینئر جج صاحبان کا اس بینچ سے اٹھ کر چلے جانا مناسب نہیں، جو جلسے لے کر آئے تھے انہوں نے جس قسم کی تقاریر کیں وہ سن نہیں سکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے امید تھی کہ وہ بیٹھیں گے، یہ انسانی حقوق کا مسئلہ تھا، اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بیٹھ جاتے تو خوشی ہوتی لیکن افسوس ہوا۔

9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا

قبل ازیں فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی زیرسربراہی 9 رکنی بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تھا۔

9 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل تھا۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ روسٹرم پر آئیں، کچھ کہنا چاہتا ہوں، عدالتوں کو سماعت کا دائرہ اختیار آئین کی شق 175 دیتا ہے، صرف اور صرف آئین عدالت کو دائرہ سماعت کا اختیار دیتا ہے، ہر جج نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ آئین اور قانون کے تحت سماعت کرے گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ واضح کرنا چاہتا ہوں کل مجھے تعجب ہوا کہ رات کو کاز لسٹ میں نام آیا، مجھے اس وقت کاز لسٹ بھجی گئی، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے 8 رکنی بینچ نے روک دیا تھا، اس قانون کا فیصلہ نہیں ہوا اس لیے اُس پر رائے نہیں دوں گا، اس سے پہلے ایک تین رکنی بینچ جس کی صدرات میں کر رہا تھا 5 مارچ کو کر رہا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ 5 مارچ والے فیصلے کو 31 مارچ کو ایک سرکولر کے ذریعے ختم کردیا جاتا ہے، ایک عدالتی فیصلے کو رجسٹرار کی جانب سے نظر انداز کیا گیا، یہ عدالت کے ایک فیصلے کی وقعت ہے، پہلے اس سرکولر کی تصدیق کی جاتی ہے پہر اس سرکولر کو واپس لیا جاتا ہے۔

ریمارکس کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ غلطی ہوتی ہے ہم انسان ہیں، مجھ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے، اس پر 8 اپریل کو میں نے نوٹ لکھا جو ویب سائٹ پر لگا، پھر ہٹا دیا گیا۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ قوانین میں ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی ہے، اس قانون کے مطابق بینچ کی تشکیل ایک میٹنگ سے ہونی ہے، اس قانون کو بل کی سطح پر ہی روک دیا گیا، اس پر معزز چیف جسٹس نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اس 6 رکنی بینچ میں اگر نظرثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟ میں اس بینچ کو ’بینچ‘ تصور نہیں کرتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں اس وقت تک کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا، میں معذرت چاہتا ہوں، ججز کو زحمت دی، میں اس بینچ سے اٹھ رہا ہوں لیکن سماعت سے انکار نہیں کر رہا، میں اس پر مزید بحث نہیں سن سکتا۔

جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ میں قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، ہم ان درخواستوں پر فیصلہ کریں گے، پہلے ان درخوستوں کو سنا جائے، اگر اس کیس میں فیصلہ حق میں آتا ہے تو اس کیس کی اپیل 8 جج کیسے سنیں گے؟

سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ معاملہ 25 کروڑ عوام کا ہے، اس پر جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ جب آئے گا تو دیکھ لیں گے۔

ایڈووکیٹ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کیس نہیں سنیں گے تو 25 کروڑ عوام کا کیا ہوگا، ہم چاہتے تھے کہ ایک گھر کی طرح مسائل سائیڈ پر رکھ کر سماعت کی جائے، جواب میں جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کسی کا گھر نہیں ہے، عدالت ہے۔

ججز کو معلوم نہیں اس کیس میں اٹارنی جنرل نے وقت لیا ہے، چیف جسٹس

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق کی جانب سے خود کو 9 رکنی بینچ سے علیحدہ کرنے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمارے 2 ججز نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ اس کیس میں اٹارنی جنرل نے وقت لیا ہے، کیا پتا اس میں امتناع ختم ہو، ہوسکتا ہے اس کیس میں مخلوق خدا کے حق میں فیصلہ ہو۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کیس میں بیٹھ کر سماعت کریں، یہ اہم کیس ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے کیس کا کوئی اور حل کرتے ہیں، ہم نے بھی یہ بینچ اپنے آئین کے تحت قسم کے مطابق بنایا، ہم یہاں مخلوق خدا کے حق میں فیصلے کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔

دریں اثنا سپریم کورٹ کا لارجر بینچ کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلا گیا، عدالتی عملے کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے بینچ میں نہ بیٹھنے کے باوجود چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس سننے کا فیصلہ کیا اور بعد ازاں 7 رکنی بینچ نے ڈیڑھ بجے دوبارہ کیس کی سماعت کا آغاز کیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

20 جون کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کے توسط سے دائر درخواست میں سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔

اس درخواست سے قبل مختلف شہروں سے سول سوسائٹی کے 5 ارکان نے اپنے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے 9 مئی کے تشدد کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی۔

اسی طرح 18 جون کو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اعتزاز احسن نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

اعتزاز احسن کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست دائر کی جس میں شہریوں کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں، آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے۔

9 مئی کی ہنگامہ آرائی اور بعد کے حالات

خیال رہے کہ رواں سال 9 مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو پیراملٹری فورس رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا جس کے بعد ملک بھر میں ہوئے پر تشدد احتجاج کے دوران املاک کی توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ دیکھنے میں آیا۔

احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات، بشمول کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ اور پاکستان بھر میں ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔

اس واقعے کے بعد، فوج نے اس دن کو ملکی تاریخ کا ایک ’سیاہ باب‘ قرار دیا تھا اور توڑ پھوڑ میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا تھا۔

بعد میں مزید سخت قدم اٹھاتے ہوئے حکومت نے سول اور فوجی تنصیبات پر حملے اور آتش زنی کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا۔

اس فیصلے کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی توثیق کی تھی، جو کہ قومی سلامتی کے امور کے لیے ملک کا اعلیٰ ترین فورم برائے رابطہ کاری ہے۔

بعد ازاں 20 مئی کو آرمی چیف نے کہا کہ مئی کے سانحے میں ملوث منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور مجرموں کے خلاف مقدمے کا قانونی عمل آئین سے ماخوذ موجودہ اور قائم شدہ قانونی طریقہ کار کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت شروع ہو گیا ہے۔

اس کے بعد فوج اور حکومت نے شہدا کی قربانیوں کو یاد کرنے اور ان کے خاندانوں کو عزت دینے کے لیے 25 مئی کو ’یوم تکریم شہدا‘ منانے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں ملک بھر میں قائم یادگار شہدا پر متعدد یادگاری تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔

خیال رہے کہ 26 مئی کو ایک نیوز کانفرنس میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ 9 مئی سے متعلق صرف 6 مقدمات میں 33 ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔

گزشتہ دنوں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ فوج کے قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں جو کہ منصفانہ ٹرائل کی بنیاد ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں