جنرل عاصم منیر سے سربراہ امریکی سینٹرل کمانڈ کی ملاقات، علاقائی امن کیلئے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف

اپ ڈیٹ 24 جولائ 2023
دونوں شخصیات نے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کی خواہش کا اعادہ کیا — فوٹو: آئی ایس پی آر
دونوں شخصیات نے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کی خواہش کا اعادہ کیا — فوٹو: آئی ایس پی آر

امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے سربراہ جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس) جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے دوران خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی مسلسل کوششوں کا اعتراف کیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے آج راولپنڈی میں جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی۔

بیان میں کہا گیا کہ دورے پر آنے والے جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی کامیابیوں اور خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی مسلسل کوششوں کا اعتراف اور تعریف کی۔

آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ ملاقات کے دوران باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی کی صورتحال اور دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ ملاقات کے دوران دونوں شخصیات نے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کی خواہش کا اعادہ کیا۔

یاد رہے کہ اس ملاقات سے محض چند روز قبل دونوں ممالک نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گرد حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے سے روکے۔

گزشتہ ہفتے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک پریس بریفنگ کے دوران اس مؤقف کو دہرایا تھا کہ طالبان انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی سرگرمیوں کو قابو کرے۔

ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ میں اس پر کوئی خاص تبصرہ نہیں کروں گا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ہم بالکل واضح کر چکے ہیں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کو دہشت گردانہ حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے سے روکے۔

امریکی حکام کی جانب سے یہ بیان پاک فوج کی جانب سے افغانستان پر عسکریت پسندی میں اضافے کا الزام عائد کرنے کے ایک روز بعد سامنے آیا تھا۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت 258ویں کور کمانڈر کانفرنس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ہمسایہ ملک میں ٹھکانے ہیں، ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپ پاکستان میں مسائل پیدا کر رہے ہیں۔

کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہوں کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے اور وہ جدید ترین ہتھیاروں کے حصول میں کامیاب رہی ہے جب کہ دہشت گرد افغانستان میں آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔

قبل ازیں وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی افغانستان کو ہمسایہ اور برادر ملک کے طور پر اپنے فرائض میں غفلت برتنے اور دوحہ امن معاہدے میں کی گئی طے کردہ ذمے داریوں کو نظر انداز کرنے، خاص طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنے میں ناکامی پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں حکومت پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ بندی کے خاتمے کے بعد ملک میں اور خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں