عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس قابل سماعت قرار دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم

اپ ڈیٹ 04 اگست 2023
اسلام آباد ہائی کورٹ تفصیلی حکم نامے میں کہا کہ معاملہ دوبارہ فیصلے کے لیے ٹرائل کورٹ میں بھیجا جا رہا ہے — فائل فوٹو: آئی ایچ سی ویب سائٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ تفصیلی حکم نامے میں کہا کہ معاملہ دوبارہ فیصلے کے لیے ٹرائل کورٹ میں بھیجا جا رہا ہے — فائل فوٹو: آئی ایچ سی ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیشن کورٹ معاملے کو سن کر دوبارہ فیصلہ جاری کرے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف عمران خان کی درخواست پر گزشہ روز فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی حق دفاع ختم کرنے کی درخواست پر نوٹس جاری کرکے آئندہ ہفتے فریقین سے جواب طلب کر لیا ہے۔

عدالت نے عمران خان کی توشہ خانہ فوجداری کیس ہمایوں دلاور کی عدالت سے منتقل کرنے کی درخواست مسترد کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے مطابق سیشن کورٹ کی جانب سے کیس کے قابل سماعت ہونے سے متعلق ان کے دلائل نہیں سنے گئے، سیشن عدالت نے درخواست گزار کو سنے بغیر توشہ خانہ کیس قابل سماعت قرار دے دیا تھا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے فیصلے میں کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی مقدمہ قابل سماعت قرار دیے جانے کے خلاف درخواستیں منظور کی جاتی ہیں، قابل سماعت سے متعلق معاملہ دوبارہ ٹرائل کورٹ کو بھیجا جاتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ میں حتمی دلائل کے لیے طلب کیا گیا ہے لہٰذا درخواست گزار ٹرائل کورٹ میں پیش ہو کر حتمی دلائل ضرور دیں اور ٹرائل کورٹ فیصلہ کرتے ہوئے درخواست گزار کے اعتراضات کو ملحوظ خاطر رکھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلے میں لکھا کہ قابل سماعت سے متعلق معاملہ دوبارہ اسی سیشن عدالت کو بھیجا جاتا ہے، سیشن عدالت دوبارہ دونوں فریقین کے تازہ دلائل سننے کے بعد قابل سماعت سے متعلق فیصلہ کرے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار نے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ کسی دوسری عدالت منتقل کرنے کی بھی استدعا کی، درخواست گزار کے مطابق سیشن عدالت نے قابل سماعت قرار دے کر اپنا مائنڈ ظاہر کردیا ہے، کیس سے متعلق مائنڈ ظاہر کرنا کسی جج کو اس کی دوبارہ سماعت کرنے کا اختیار چھین نہیں لیتا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ سیشن عدالت کے فیصلے کے مطابق درخواست گزار کو دلائل کے لیے متعدد مواقع فراہم کیے گئے تھے لیکن وکلا نے دلائل نہیں دیے، اس لیے انہیں سنے بغیر فیصلہ کیا گیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار یہ کہنے پر بجا ہیں کہ انہیں سنے بغیر فیصلہ ہوا لہٰذا اس کو دوبارہ سیشن عدالت بھیجا جائے، تاہم ضروری نہیں کہ اس معاملے کو کسی دوسرے جج کو منتقل کیا جائے۔

عدالت عالیہ نے کہا کہ درخواست گزار کی طرف سے کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے غیر ضروری جلدبازی دکھا رہی ہے، قانون کے مطابق کیس کسی دوسرے جج کو منتقل کرنے کے لیے الزامات کے ٹھوس شواہد ضروری ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کیس دوسرے جج کو منتقل کرنے کا مطلب ہوگا کہ جج کے خلاف الزامات درست ہیں، یہ صورت حال عوام کی نظر میں عدلیہ کی ساکھ متاثر کرے گی اور اگر مقدمات یونہی منتقل ہوتے رہے تو فریقین ناجائز فائدہ اٹھانے لگیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمے کی منتقلی کی درخواست سنتے وقت خیال رکھنا چاہیے کہ فریقین کو اپنی مرضی کا جج چننے کی اجازت نہیں، جج ہمایوں دلاور کی عدالت سے مقدمے کی منتقلی کا کوئی جواز نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مقدمے دوسری عدالت منتقلی کی درخواست پر فیصلے میں کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی کیس منتقلی کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں باقی درخواستیں نمٹائی جاتی ہیں۔

جج کی تبدیلی کی درخواست مسترد

اسلام آباد ہائی کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے مبینہ فیس بک پوسٹس کی بنیاد پر جج ہمایوں دلاور کی تبدیلی کی درخواست دی گئی جبکہ جج پہلے ہی ان فیس بک پوسٹس کی واضح تردید کرچکے ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر عدالت نے کہا کہ فیس بک پوسٹس کا معاملہ 25 جولائی کو وفاقی تحقیقات ادارہ (ایف آئی اے) کو بھیجا گیا اور ایف آئی اے نے ابتدائی رپورٹ میں بتایا کہ یو آر ایل کے بغیر پوسٹس کی تحقیقات ممکن نہیں ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ایف آئی اے نے ہمایوں دلاور کے فیس بک اکاونٹ کی بھی چھان بین کی اور فیس بک اکاونٹ پر ایف آئی اے کو مذکورہ مبینہ پوسٹس نہیں ملیں، تاہم فیس بک پوسٹس کے معاملے کی تحقیقات ضروری ہیں۔

جج کے فیس بک اکاؤنٹ کے بارے میں کہا گیا کہ تحقیقات میں ان افراد کو بھی شامل کیا جائے جنہوں نے یہ پوسٹس ایک سینیئر جوڈیشل افسر کی ساکھ متاثر کرنے کے لیے استعمال کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ بادی النظر میں مبینہ فیس بک پوسٹس اصل یا معتبر نہیں ہیں لیکن ایف آئی اے فیس بک پوسٹس سے متعلق معاملے پر جامع تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرائے۔

حق دفاع ختم کرنے کے خلاف درخواست پر فیصلہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیرمین پی ٹی آئی کا حق دفاع ختم کرنے کے خلاف کیس کا بھی تحریری فیصلہ جاری کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے دو صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا اور فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار کی جانب بتایا گیا کہ گواہوں کو پیش کرنے کی درخواست مسترد کر دی گئی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے بغیر کسی وجہ کے گواہوں کو پیش کرنے کی درخواست مسترد کر دی لہٰذا چیرمین پی ٹی آئی کی حق دفاع کے خاتمے کے خلاف درخواست پر نوٹسسز جاری کیے جاتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کو نوٹسسز جاری کرکے جواب طلب کرلیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کے عدالتی فیصلے کے خلاف سابق وزیر اعظم کی درخواست پر سماعت کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے وکیل خواجہ حارث اور بیرسٹر گوہر علی عدالت میں پیش ہوئے تھے جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز بھی موجود تھے۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔

گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں