سزا معطلی کے باوجود عمران خان کو اٹک جیل میں رکھنے کی وجوہات طلب

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2023
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، عمران خان کی اڈیالہ جیل سے اٹک جیل منتقلی سمیت دیگر درخواستوں کی سماعت کر رہے تھے — فائل فوٹو: آئی ایچ سی ویب سائٹ
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، عمران خان کی اڈیالہ جیل سے اٹک جیل منتقلی سمیت دیگر درخواستوں کی سماعت کر رہے تھے — فائل فوٹو: آئی ایچ سی ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے توشہ خانہ کیس میں سزا کی معطلی کے بعد بھی پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی اٹک جیل میں قید سے متعلق نوٹی فکیشن طلب کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ، عمران خان کی اڈیالہ جیل سے اٹک جیل منتقلی، مناسب سہولیات کی عدم دستیابی اور سائفر کیس میں اٹک جیل میں حراست میں رکھنے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کر رہے تھے۔

دوران سماعت ایف آئی اے کی جانب سے پراسیکیوٹر نے درخواستوں پر جواب جمع کرانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت مانگ لی۔

عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ سائفر کیس سے متعلق درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، اس لیے ذیلی عدالت ضمانت کی درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کے جیل ٹرائل کا نوٹی فکیشن صرف 30 اگست کے لیے جاری کیا گیا تھا، پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے جواب دیا کہ عمران خان کے ریمانڈ کا حکم دینے کے لیے عدالت کو اٹک منتقل کیا گیا اور ٹرائل کورٹ، قانون کے مطابق ٹرائل جاری رکھنے کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔

ایڈووکیٹ شیر افضل مروت نے سوال کیا کہ کیا 13 ستمبر کو سائفر کیس کی آئندہ سماعت سے قبل ایک اور نوٹی فکیشن جاری کیا جائے گا؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ آئندہ سماعت سے قبل ایف آئی اے سے ہدایات لے کر وہ اس سلسلے میں عدالت کو آگاہ کریں گے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سماعت مذکورہ تاریخ سے قبل طے کر لی جائے گی، انہوں نے ریمارکس دیے کہ جیل ٹرائل کا نوٹی فکیشن وزارت داخلہ جاری کر سکتی ہے لیکن اس معاملے میں وزارت قانون کی جانب سے نوٹی فکیشن جاری کیا گیا۔

عمران خان کے وکیل نے اصرار کیا کہ حکومت کو پی ٹی آئی کے چیئرمین کے اٹک جیل میں ٹرائل کے لیے مزید نوٹی فکیشن جاری کرنے سے روکا جا سکتا ہے، انہوں نے خدشات کا اظہار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی آئندہ سماعت سے قبل ہی نوٹی فکیشن جاری کیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جب کہ عدالت قانون کے مطابق اس کا جائزہ لے گی۔

وکیل شیر افضل مروت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ وہ ٹرائل کورٹ کو ضمانت کی درخواست سننے کی ہدایت کریں جب کہ ٹرائل جج ہائی کورٹ میں زیر التوا درخواست پر فیصلے کے منتظر ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کیونکہ سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کی جا رہی ہے، اس لیے عمران خان مزید ایک ہفتہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ اس حوالے سے بھی حکم جاری کریں گے اور ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے لیے کوئی حکم امتناع جاری نہیں کیا۔

اسپیشل پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے استدلال کیا کہ اگر ٹرائل کورٹ ضمانت کی درخواست کا فیصلہ کرتی ہے تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی درخواست غیر مؤثر ہو جائے گی، جب کہ متاثرہ فریق حکم کے خلاف اپیل دائر کرے گا۔

ایڈووکیٹ شیر افضل مروت نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کو اٹک جیل منتقل کیا گیا جب کہ اس جیل میں سیاسی قیدیوں کے لیے مناسب سہولیات نہیں ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب بشریٰ بی بی اٹک جیل گئیں تو پولیس نے ان کے خلاف مبینہ طور پر جیل کے گارڈ کو رشوت کی پیشکش پر مقدمہ درج کرنے کی کوشش کی۔

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے جیلوں میں اے اور بی کلاسز ختم کر دی ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے نشاندہی کی کہ عمران خان، سائفر کیس میں ملزم ہیں جو اسلام آباد کی عدالت میں زیرسماعت ہے، انہیں کس قانون کے تحت اٹک جیل منتقل کیا گیا۔

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ آئی جی جیل خانہ جات کے پاس قیدی کو ایک جیل سے دوسری جیل منتقل کرنے کا اختیار ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں