انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر میں اضافے کا رجحان، ڈالر مزید سستا

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2023
میٹس گلوبل کے مطابق پاکستانی کرنسی کی قدر میں اضافے کی وجہ مرکزی بینک کی جانب سے ایکسچینج کمپنیز کے لیے حالیہ متعارف کردہ اصلاحات ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
میٹس گلوبل کے مطابق پاکستانی کرنسی کی قدر میں اضافے کی وجہ مرکزی بینک کی جانب سے ایکسچینج کمپنیز کے لیے حالیہ متعارف کردہ اصلاحات ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر میں اضافے کا رجحان جاری رہا، آج انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر ایک روپے 99 پیسے سستا ہو کر 302 روپے 95 پیسے اور اوپن مارکیٹ میں 301 کا ہو گیا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر ایک روپے 99 پیسے یا 0.66 فیصد اضافے کے بعد 302 روپے 95 پیسے پر بند ہوئی، جو گزشتہ روز کے اختتام پر 304 روپے 94 پیسے ریکارڈ کی گئی تھی۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق اوپن مارکیٹ میں دوپہر 12 بجے ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی تجارت 301 روپے پر کی جارہی تھی۔

الفا بیٹا کور کے چیف ایگزیکٹو خرم شہزاد نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ حکومت کے کریک ڈاؤن کی وجہ سے روپے کی قدر میں اضافہ ہورہا ہے، اور خاص طور پر آرمی چیف کی جانب سے اسمگلنگ پر قابو پانے کی ہدایت کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں، یہ اچھی پیش رفت ہے، اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو حقیقی معنوں میں ڈالر کی قدر کا تعین طلب اور رسد کے تحت ہوسکتا ہے۔

ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سروے کے مطابق 38 فیصد شرکا نے پیش گوئی کی ہے کہ جون 2024 تک روپے کے مقابلے میں ڈالر 320 سے 340 روپے کے درمیان رہ سکتا ہے۔

مزید بتایا کہ تقریباً 25 فیصد افراد کو لگتا ہے کہ ڈالر 340 سے 360 روپے کے درمیان رہ سکتا ہے جبکہ 21 فیصد شرکا کو ڈالر کی قدر 300 سے 320 روپے کے درمیان رہنے کی توقع ہے۔

اس کے علاوہ 12 فیصد افراد کا خیال ہے کہ ڈالر 300 سے کم رہے گا اور 5 فیصد لوگوں کو ڈالر 360 روپے سے اوپر رہنے کا امکان نظر آتا ہے۔

ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹو محمد سہیل نے بتایا کہ ہمیں توقع ہے کہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر جون 2024 تک 320 سے 340 روپے کے درمیان ہوگا۔

میٹس گلوبل کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی کرنسی کی قدر میں اضافے کی وجہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے ایکسچینج کمپنیز کے لیے حالیہ متعارف کردہ اصلاحات ہیں۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ سٹہ بازوں، ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن نے بھی کردار ادا کیا ہے، جس کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ اور انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں فرق آئی ایم ایف کی تجویز کردہ زیادہ سے زیادہ 1.25 فیصد سے نمایاں طور پر کم ہوا ہے۔

واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) معاہدے کے تحت اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مسلسل 5 دن تک انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں فرق 1.25 فیصد سے زیادہ نہ ہو۔

میٹس گلوبل نے مزید کہا کہ یہ کہنا درست ہے کہ انٹربینک مارکیٹ میں کسی مداخلت کی ضرورت کے بغیر اوپن مارکیٹ میں سٹہ بازی کے خلاف حکومتی اقدامات کے مثبت نتائج آرہے ہیں۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اگر حکومت سونے کے اسمگلرز کے خلاف بھی اسی قسم کے اقدامات کرتی ہے تو صورتحال مزید بہتر ہوسکتی ہے کیونکہ جو لوگ ڈالر نہیں خرید سکتے وہ اسمگل شدہ گولڈ میں سرمایہ کاری کریں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فوریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے بتایا تھا کہ کریک ڈاؤن کے بعد غیر قانونی کرنسی ڈیلرز انڈر گراؤنڈ ہوگئے ہیں، جس کے سبب اوپن مارکیٹ میں استحکام دیکھا جا رہا ہے۔

ظفر پراچا نے بتایا تھا کہ خاص طور پر آرمی چیف نے اسمگلنگ کے خلاف جو مہم چلائی ہے، چاہے وہ اسمگلنگ کرنسی، اشیا یا پھر ڈالر کی ہو، اس کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں