پارٹی رہنماؤں کے اجلاس میں انتظامی، قانونی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، شہباز شریف

22 ستمبر 2023
شہباز شریف نے لندن میں میڈیا سے بات کی—فوٹو: ڈان نیوز
شہباز شریف نے لندن میں میڈیا سے بات کی—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ لندن میں نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں تمام قانونی اور انتظامی امور پر تبادلہ خیال کے بعد اس حوالے سے فیصلے کیے گئے۔

لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ وہ نواز شریف کی ہدایت پر اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور سے فوری طور پر واپس آیا ہوں اور یہاں پارٹی کا اجلاس ہوئے اور فیصلے کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں پاکستان میں کاروبار اور سرمایہ کاری عروج پر تھی لیکن 2018 کے بعد جو کچھ کیا گیا وہ پوری قوم نے دیکھا اور قوم کے ساتھ سنگین مذاق کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم ترقی کے راستے پر تیزی سے رواں دواں تھی لیکن اس سفر کو یکدم ختم کردیا گیا، جھرلو انتخابات ہوگئے اور نواز شریف کا مینڈیٹ چھین لیا گیا، پاکستان کے کروڑوں عوام کو ترقی اور خوشحالی کے سفر سے محروم کیا گیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ خوش حالی اور ترقی کے سفر کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے نواز شریف پاکستان تشریف لا رہے ہیں، زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے نواز شریف معمار بن کر واپس آئیں گے اور سفر کو وہیں سے شروع کریں گے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پارٹی کے قائد نواز شریف کی ہدایت پر اس دورے پر آیا ہوں اور آج رہنماؤں کا ہمارا اجلاس تھا، جس کے لیے یہاں آنا پڑا اور ملاقات ختم ہوگئی اور ہم نے اس حوالے سے تمام فیصلے کرلیے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا دور تاریخ میں سب سے اچھا دور تھا، مہنگائی 3.5 فیصد تھی مگر تباہ کیا گیا لیکن یکدم بحالی نہیں ہوسکتی ہے اور ہم نے غلط وعدے نہیں کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے 2013 میں کہا تھا کہ قوم نے موقع دیا تو 2013 سے 2018 تک بجلی کے اندھیرے ختم کرنے کی کوشش کروں گا، نواز شریف نے قوم سے کیا گیا وعدہ پورا کیا اور بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوئی۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف کی مخالفت میں قوم کو تقسیم در تقسیم کیا گیا، قوم میں زہر گھولا گیا، عمران نیازی نے قوم کو گالی گلوچ کے علاوہ کچھ نہیں سکھایا، بڑوں، اساتذہ کی بے عزتی کی طرف راغب کیا، جس کا سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف اس زہر کو ختم کرنے کے لیے آرہا ہے، نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے، نوجوانوں کو آئی ٹی اور زراعت سمیت دیگر شعبوں میں روزگار دلائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری لائیں گے، نوجوان نسل کی تعلیم، علاج اور روزگار کے لیے دن رات کام کریں گے۔

صحافیوں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو واپس جا رہے ہیں۔

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم شہباز شریف جمعرات کو اس وقت لندن روانہ ہوگئے تھے جب انہیں وطن واپس لوٹے ہوئے 48 گھنٹے ہوئے تھے اور اس پر مختلف چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔

اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز بھی لندن پہنچی تھیں اور ڈان کو ذرائع نے بتایا تھا کہ دونوں رہنما نواز شریف کے ساتھ ان کی پاکستان واپسی کے بارے میں اہم گفت و شنید کریں گے۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی سے اہم معاملات پر بات چیت کے لیے واپس لندن جا رہے ہیں، نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے اہم بات چیت جاری ہے جکہ بالمشافہ ہونی چاہیے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ یہ بات چیت موجودہ سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ آئندہ عام انتخابات کے لیے پارٹی کے لائحہ عمل کے حوالے سے بھی ہوگی، ظاہر ہے کہ یہ فوری نوعیت کے معاملات ہیں اور اس حوالے سے فون پر بات چیت نہیں کی جا سکتی۔

مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے بتایا تھا کہ شہباز شریف نے بدھ کو لاہور میں مریم نواز سے بالمشافہ ملاقات بھی کی تھی جس میں نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

انہوں نے نیب ترامیم کو ختم کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اپنے اور شریف خاندان کے دیگر افراد کے خلاف کیسز کے دوبارہ کھلنے سے پیدا ہونے والی صورت حال اور اس کے نتیجے میں انہیں درپیش قانونی پیچیدگیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

ملاقات کے حوالےس ے کہا گیا تھا کہ یہ سوال بھی زیر غور ہے کہ اگلی حکومت میں وزیراعظم کے عہدے کے لیے پارٹی کا انتخاب کون ہوگا۔

حالیہ ہفتوں میں محمد زبیر، عابد شیر علی اور خواجہ آصف سب ہی نے لندن میں نواز شریف سے ملاقات کی ہے اور نواز شریف کی وطن واپسی کے منصوبے سے متعلق اپنے پیغامات پہنچائے ہیں۔

اس سے قبل نواز شریف کے ہمراہ اسٹین ہاپ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے ہی اعلان کیا تھا کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آرہے ہیں، اس دورے میں دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے سے کئی ملاقاتوں میں گفت و شنید کی، پارٹی کے دیگر ارکان بھی ان ملاقاتوں میں شریک ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں