بلوچستان: مستونگ میں 12 ربیع الاول کے جلوس میں خودکش دھماکا، 53 افراد جاں بحق

اپ ڈیٹ 29 ستمبر 2023
پولیس کے مطابق دھماکا جلوس کے قریب ہوا—فوٹو: رائٹرز
پولیس کے مطابق دھماکا جلوس کے قریب ہوا—فوٹو: رائٹرز
ڈاکٹر سعید میروانی نے کہا کہ نواب غوث بخش رئیسانی میموریل ہسپتال میں زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے—فوٹو:رائٹرز
ڈاکٹر سعید میروانی نے کہا کہ نواب غوث بخش رئیسانی میموریل ہسپتال میں زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے—فوٹو:رائٹرز
اسسٹنٹ کمشنر مستونگ کے مطابق زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے—فوٹو:ڈان نیوز
اسسٹنٹ کمشنر مستونگ کے مطابق زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے—فوٹو:ڈان نیوز
اسسٹنٹ کمشنر مستونگ کے مطابق زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے—فوٹو:ڈان نیوز
اسسٹنٹ کمشنر مستونگ کے مطابق زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے—فوٹو:ڈان نیوز

بلوچستان کے ضلع مستونگ میں 12 ربیع الاول کے جلوس میں خود کش دھماکے میں پولیس افسر سمیت 53 افراد جاں بحق اور درجنوں شہری زخمی ہوگئے۔

مستونگ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے میدیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نثار احمد نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ہسپتال میں 16 لاشیں لائی گئیں جبکہ شہید نواب غوث بخش رئیسانی میموریل ہسپتال کے چیف ایگزیکیٹو افسر (سی ای او) ڈاکٹر سعید میروانی نے تصدیق کی کہ ان کے پاس 32 لاشیں لائی گئی ہیں۔

سول ہسپتال کوئٹہ کے ترجمان ڈاکٹر وسیم بیگ نے کہا کہ مستونگ دھماکے میں جان کی بازی ہارنے والے 5 افراد کی لاشیں یہاں لائی گئی ہیں۔

ڈاکٹر سعید میروانی نے بتایا کہ ہسپتال میں اب تک 100 سے زائد زخمیوں کو لایا گیا ہے اور جن کی حالت تشویش ناک تھی، انہیں کوئٹہ منتقل کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ کیو مستونگ میں 20 زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔

ڈپٹی کمشنر مستونگ عبدالرزاق ساسولی نے بتایا کہ سیکڑوں افراد پر مشتمل جلوس مدینہ مسجد سے شروع ہوا اور جب الفلاح روڈ پہنچا تھا کہ خودکش بمبار نے نشانہ بنایا۔

ڈاکٹر سعید میروانی نے کہا کہ نواب غوث بخش رئیسانی میموریل ہسپتال میں زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے—فوٹو: رائٹرز
ڈاکٹر سعید میروانی نے کہا کہ نواب غوث بخش رئیسانی میموریل ہسپتال میں زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے—فوٹو: رائٹرز

اسسٹنٹ کمشنر مستونگ عطا اللہ منعم نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا تھا کہ دھماکا جشن عید میلاد النبی صل اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں نکالے جانے والے جلوس کے لیے جمع افراد کے قریب ہوا۔

اسسٹنٹ کمشنر نے تصدیق کی کہ دھماکا موقع پر موجود مستونگ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) نواز گشکوری کی گاڑی کے قریب ہوا۔

سٹی اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) محمد جاوید لہڑی نے کہا کہ دھماکا ’خودکش‘ تھا اور بمبار نے خود کو ڈی ایس پی علی نواز گشکوری کی گاڑی کے قریب دھماکے سے اڑا لیا۔

جاوید لہڑی نے بتایا کہ خود کش حملہ آور نے خود کو ڈی ایس پی سٹی علی نواز گشکوری کی گاڑی سے ٹکرایا جس کے بعد دھماکا ہوا۔

دھماکے کے بعد سامنے آنے والی غیر مصدقہ تصاویر اور ویڈیوز میں خون میں لت پت لاشیں دیکھی گئیں۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) منیر احمد نے غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ بمبار نے ڈی ایس پی کی گاڑی کے قریب خود کو دھماکے سے اڑایا، انہوں نے مزید کہا کہ دھماکا مسجد کے قریب ہوا جہاں لوگ عام تعطیل کے موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کے سلسلے میں نکالے جانے والے جلوس کے لیے جمع تھے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دھماکے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کارروائیاں شروع کردی گئی ہیں، آئی جی

آئی جی بلوچستان عبد الخالق شیخ نے کہا کہ مستونگ میں ایک بہت ہی افسوس ناک واقعہ ہوا جہاں ڈی ایس پی نواز گشکوری نے خودکش حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈی ایس پی نواز گشکوری شہید ہوئے اور مزید تین اہلکار زخمی ہوئے ہیں اور بے گناہ شہری بھی شہید ہوئے ہیں۔

آئی جی بلوچستان نے کہا کہ فوری طور پر ایسے واقعات روکنے کیلئے کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا، مستونگ میں پہلے کچھ گروپ متحرک تھے۔

ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مستونگ میں متحرک گروپس کے خلاف آپریشن جاری ہیں، ماضی میں مستونگ میں داعش نے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

ہینڈ گرینیڈ ناکارہ بنا دیا گیا

مستونگ خودکش دھماکے کے بعد دوپہر 2 سے پہر 3 بجے کے درمیان ایس ایچ او جاوید لہڑی نے بتایا کہ دھماکے کی جگہ کے قریب ایک اور زور دار دھماکے کی آواز سنی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ یہ دھماکا محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کی جانب سے بس اسٹاپ کے قریب کنٹرولڈ ہینڈ گرینیڈ ناکام بنانے کی کوشش کے دوران ہوا۔

اہلکار نے مزید کہا کہ کسی بھی حادثے سے بچنے کے لیے علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے۔

بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ امدادی ٹیمیں مستونگ روانہ کر دیا گیا، شدید زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کیا جا رہا ہے اور تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

جان اچکزئی نے مزید کہا کہ دشمن بیرونی حمایت سے بلوچستان میں مذہبی رواداری اور امن تباہ کرنا چاہتا ہے، یہ دھماکا ناقابل برداشت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نگران وزیر اعلیٰ علی مردان ڈومکی نے حکام کو دھماکے کے ذمہ داروں کو گرفتار کرنے کی ہدایت کی ہے۔

بعد ازاں پریس کانفرنس میں صوبائی نگران وزیر نے کہا کہ دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد بدقسمتی سے بڑھی ہے اور انکشاف کیا کہ متعدد خاندانوں نے اپنے پیاروں کی ہسپتال لائے بغیر تدفین کی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے متعلقہ تعداد کو جاں بحق افراد کی سرکاری سطح پر جاری فہرست میں شامل نہیں کیا ہے۔

جان اچکزئی نے کہا کہ جہاں تک زخمیوں کا تعلق ہے تو کئی افراد کی حالت تشویش ناک ہے اور انہیں انتہائی نگہداشت اور ٹراما سینٹر میں منتقل کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کی حالت مزید خراب ہوئی تو انہیں کوئٹہ سےکراچی منتقل کیا جائے گا۔

’ذمہ دار افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں‘

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے مستونگ میں دھماکے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ حکومت ملک سے دہشت گردی کا جڑ سے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر دھماکے کی شديد مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانی نقصان پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔

ایوان صدر سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت عارف علوی نے جاں بحق افراد کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار افسوس کیا اور جاں بحق افراد کے لیےدعائے مغفرت اور اہل خانہ کے لیے صبر کی دعا کی۔

صدر مملکت نے زخمیوں کو طبی امداد کی فراہمی پر زور دیا اور ان کی جلد صحت یابی کی بھی دعا کی ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ مستونگ اور ہنگو میں آج کے دہشت گردی حملوں نے ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والے واقعات کے زخم تازہ کر دیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی۔

نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے جانی نقصان پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔

سوشل میڈیا پر جاری اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ عید میلاد النبی کے جلوس میں شرکت کے لیے آئے معصوم لوگوں پر حملہ انتہائی قبیح عمل ہے، دہشت گردوں کا کوئی دین اور مذہب نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ریسکیو آپریشن اور امدادی کارروائیوں میں تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے اور زخمیوں کے علاج معالجے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں، دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے مستونگ میں دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائیوں سے قوم کے حوصلے پست نہیں ہو سکتے، پورا پاکستان دہشت گردی کی لعنت کے خلاف متحد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں، سیکیورٹی فورسز اور عوام کے تعاون سے دہشت گردی کی عفریت کا مکمل خاتمہ کریں گے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز شریف نے بیان میں کہا کہ معصوم شہریوں پر بزدلانہ حملے پر انتہائی دکھ ہے اور ایسے گھناؤنے اقدامات کے لیے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے واقعے کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ زخمیوں کو بہتر معیار کی طبی سہولت فراہم کی جائے۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مستونگ دھماکے کے مناظر بڑے دلخراش ہیں اور شہیدوں کے خاندانوں کے لیے دعا گوہ ہیں۔

سوشل میڈیا پر جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ انسانی زندگیاں خطرے میں ہیں اور دہشت گردوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم بطور قوم بزدل نہیں ہیں۔

ایران نے بھی مستونگ دھماکے کی مذمت کی اور وزارت خارجہ کے ترجمان نصیر کنعانی نے کہا کہ آج کے دھماکے سے واضح ہے کہ دہشت گردو پیغمبر محمدﷺ کی تعلیمات سے دور ہیں۔

انہوں نے حکومت اور پاکستان کے عوام اور خاص طور پر متاثرہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔

ملک بھر میں سیکیورٹی کے سخت اقدامات

دھماکے کے فوری بعد پنجاب پولیس نے کہا کہ اس کے مستعد اہلکار صوبے بھر میں نماز جمہ کے لیے مساجد کی حفاظت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ادھر ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند نے مستونگ میں دھماکے کے تناظر میں کراچی پولیس کو مکمل طور پر ہائی الرٹ رہنے کے احکامات جاری کردیے۔

سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ انہوں نے کراچی پولیس کو شہر میں عید میلادالنبی اور نماز جمعہ کے حوالے سے سیکیورٹی اقدامات مزید سخت بنانے اور انتہائی متحرک رہنے اور غیر معمولی سرگرمیوں کی مکمل نگرانی کی سخت ہدایات جاری کی ہیں۔

اسلام آباد پولیس نے بیان میں کہا کہ اسلام آباد میں ممکنہ حالات کے پیش نظر سیکیورٹی الرٹ کردی گئی۔

بیان میں کہا گیا کہ آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خاں نے تمام افسران کو اپنے اپنے علاقوں میں الرٹ رہنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئی جی نے ہدایت کی ہے کہ عید میلادالنبی کے جلوسوں کی سیکیورٹی مزید مؤثر کی جائے اور اسلام آباد پولیس کسی بھی ممکنہ ایمرجنسی کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہری پولیس کے ساتھ تعاون کریں اور کسی بھی مشکوک سرگرمی کے متعلق 15 پر اطلاع دیں۔

یاد رہے کہ رواں ماہ کے شروع میں مستونگ میں ہونے والے دھماکے میں جے یو آئی (ف) کے سینئر رہنما حافظ حمداللہ سمیت 11 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

اس دھماکے سے ایک ہفتہ قبل ایک لیویز اہلکار کو ایک بس اسٹینڈ پر نامعلوم افراد نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا جب کہ وہاں سے گزرنے والے دو افراد زخمی بھی ہو ئے تھے۔

رواں سال مئی مستونگ میں پولیو ٹیم پر حملے کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل شہید ہو گیا تھا۔

گزشتہ سال اکتوبر میں مستونگ میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق اور 5 زخمی ہوگئے تھے۔

جولائی 2018 میں اسی ضلع میں خوفناک خودکش دھماکے میں سیاستدان نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت کم از کم 128 افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں