انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے مطالبے پر جام کمال نے پیپلز پارٹی کی حمایت کردی

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2023
جام کمال اور بلاول بھٹو نے ان چیلنجز کے حوالے سے بات کی جو نگران حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
جام کمال اور بلاول بھٹو نے ان چیلنجز کے حوالے سے بات کی جو نگران حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

سابق وزیر اعلی بلوچستان جام کمال نے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے دوران انتخابی شیڈول کا اعلان کرنے کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے مطالبے کی حمایت کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جام کمال، جو بلوچستان کی سیاست کے ایک کلیدی اسٹیک ہولڈر ہیں، نے گزشتہ روز چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی تاکہ ’بےیقینی‘ اور ان چیلنجز سے نمٹا جاسکے جو نگران حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔

یہ پہلا موقع ہے جب بلوچستان کے نمایاں سیاسی رہنماؤں کی جانب سے انتخابی شیڈول کے اعلان کا مطالبہ کیا گیا اور ساتھ ہی لوگوں کے ووٹنگ کے حقوق کے حوالے سے بےیقینی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

بلاول ہاؤس سے جاری مختصر بیان کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے اعلیٰ عہدیدار جام کمال کے ساتھ میر عامر علی خان مگسی بھی ملاقات میں شریک تھے، ملاقات میں حالیہ صورتحال، نگران حکومت کی وفاق اور صوبوں میں کارکردگی اور مستقبل کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔

انہوں نے حالیہ اقتصادی بحران کے بارے میں بھی گفتگو کی اور ان کے ممکنہ حل سے متعلق اپنے خیالات سے بھی آگاہ کیا۔

میر عامر علی خان مگسی نے بتایا کہ اجلاس میں اس بیان کے علاوہ اور بھی بہت سے امور کا احاطہ کیا گیا، ہم نے یقینی طور پر مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا جس میں حالیہ سیاسی صورتحال، بڑے اقتصادی مسائل اور سب سے ضروری ان چیلنجز کے درمیان آگے بڑھنے کا راستہ شامل ہے، ہم نے آنے والے انتخابات کے عناصر اور سیاسی جماعتوں کے کردار کے حوالے سے بھی بات کی۔

میر عامر علی خان مگسی نے دونوں فریقین کے درمیان الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول جاری کرنے کے حوالے سے معاہدہ کیے جانے کا بھی اشارہ دیا اور اسے اقتصادی اور جمہوری استحکام کے لیے’انتہائی اہم’ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پیپلز پارٹی کے اس (انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے) مطالبے کی حمایت کرتے ہیں اور اجلاس میں بھی ہم نے اس معاملے پر گفگتو کی۔

ان کے بقول ’یہ انتخابات انتہائی اہم ہیں، لیکن ہم نگران حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے زیادہ بات نہیں کر سکتے کیونکہ ان کو زیادہ مینڈیٹ حاصل نہیں اور سب سے ضروری بات یہ کہ وہ ملک کو درپیش بڑے مسائل سے نمٹنے کے قابل نہیں ہیں‘۔

جام کمال قومی اسمبلی کے 2013 کے انتخابات کے بعد روشنی میں آئے جب وہ آواران-لسبیلہ حلقے سے آزاد امیدوار کے طور پر قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے اور پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بطور وزیر مملکت برائے پیٹرولیم شامل ہو گئے۔

اپریل 2018 میں سینیٹ انتخابات کے موقع پر جام کمال نے مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کرلی اور بلوچستان عوامی پارٹی بنائی، انہوں نے صوبے میں مسلم لیگ (ن) کے ثنااللہ زہری کے بطور وزیر اعلی سربراہی میں اتحادی حکومت کا تختہ پلٹ دیا تھا تاکہ اپنی نئی تشکیل دی گئی پارٹی کی اقتدار تک راہ ہموار کر سکیں۔

جام کمال بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے پہلے صدر مقرر ہوئے اور بعد میں 2018 کے انتخابات میں بلوچستان اسمبلی میں منتخب ہوئے، وہ پھر اگست 2018 میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے لیکن بعد میں پارٹی کے اندر مہینوں سے جاری تنازع کا سامنے کرتے ہوئے اکتوبر 2018 میں وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔

تبصرے (0) بند ہیں