لاہور: تحریک انصاف کے کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کا پھر آغاز

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2023
لاہور کے مختلف علاقوں سے گزشتہ تین روز میں تحریک انصاف کے کئی کارکنان کو گرفتارکیا گیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
لاہور کے مختلف علاقوں سے گزشتہ تین روز میں تحریک انصاف کے کئی کارکنان کو گرفتارکیا گیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور پولیس نے گزشتہ تین دنوں سے شہر کے مختلف علاقوں سے کئی افراد کو گرفتار کر کے تحریک انصاف کے کارکنان کے خلاف دوبارہ کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تمام 84 تھانوں میں پی ٹی آئی کے 884 کارکنان کے نام بطور ’نئے اہداف‘ بھیجے گئے ہیں، جس پر پولیس نے کارروائی کا آغاز کیا ہے۔

ایک حکام کا کہنا تھا کہ ان میں شامل متعدد افراد کو پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت بشمول میاں محمود الرشید، میاں اسلم اقبال، حسان نیازی، یاسمین راشد وغیرہ کی ’بی ٹیم‘ قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس فہرست میں 884 پارٹی کارکنان کے نام، پتے، شناختی کارڈ اور موبائل فون نمبرز موجود ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر 9 مئی کو ہونے والے احتجاجی مقامات سے فون کیے، جب متعدد افراد نے مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تنصیبات پر حملہ کر دیا تھا۔

تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے کی جانے والی کالز کی تفصیلات بھی ناموں سے ساتھ درج ہیں، (اس کی ایک نقل ڈان کے پاس بھی موجود ہے)۔

پولیس نے اہم علاقوں کی جیو فینسنگ کے ذریعے ان کارکنان کی نشاندہی کی، جس میں کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس) اور تحریک انصاف کے چیئرمین کی رہائش گاہ زمان پارک شامل ہے۔

نئی فہرست نے کئی لوگوں کو حیران کر دیا کہ کیوں لاہور پولیس کے اعلیٰ افسران 9 مئی کے پُرتشدد واقعے کو 6 مہینے گزر جانے کے بعد پی ٹی آئی کارکنان کے نئے ناموں کے ساتھ سامنے آئے ہیں، جنہیں ہدف بنایا جانا ہے۔

اس سے متعلق یہ رپورٹس ہیں کہ اس فہرست کو صرف لاہور انویسٹی گیشن پولیس ونگ نے تشکیل دیا ہے اور فہرست میں شامل پی ٹی آئی کارکنان کو گرفتار کرنے کے لیے کئی ٹیمیں روانہ ہو چکی ہیں۔

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور عمران کشور نے ڈان سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ نئی فہرست ہے اور اس میں 9 مئی کے واقعے کے تناظر میں تحریک انصاف کے نئے کارکنان کے نام شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ شناختی عمل میں 1958 مرکزی رہنما، سخت جان اور فعال پی ٹی آئی کارکنان کی نشاندہی کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل فہرست حساس اداروں کے تعاون سے تیار کی گئی تھی، جس میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، اسپیشل برانچ، محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی)، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے)، مقامی پولیس اور دیگر متعلقہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شامل تھے۔

انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے کئی کارکنان کی پہلے مرتب کی گئی فہرستیں ہیں، جنہوں نے 9 مئی کے حملوں میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

عمران کشور کا دعویٰ ہے کہ پارٹی کارکنان کے مزید نام اس وقت سامنے آئے جب پولس نے 9 مئی کے حملوں میں گرفتار ملزمان سے پوچھ گچھ کی اور انہوں نے ان شریک ملزمان کے بارے میں معلومات دی، جو پُرتشدد واقعات کے دوران ان کے ساتھ شامل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور پولیس کو 884 نئے کارکنوں کی شناخت کرنے میں 45 دن لگے، جو جناح ہاؤس اور زمان پارک پر موجود تھے، انہوں نے مزید کہا کہ ان میں سے کئی نے 9 مئی کو متعدد مقامات پر پُرتشدد حملوں میں بھی حصہ لیا۔

افسر نے الزام لگایا کہ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کی لوکیشن جناح ہاؤس اور زمان پارک میں ٹریس کی گئی تھی، جہاں سے انہوں نے پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے رابطہ کرنے کے لیے موبائل فون کالز کی۔

اسی طرح پولیس نے تصدیق کے لیے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا جائزہ لیا اور حملہ شدہ جگہوں/مقامات پر ان کی جسمانی موجودگی کے مصدقہ ثبوت ان پوسٹس کے ذریعے حاصل کیے، جو انہوں نے شیئر کیں اور جس کو انہوں نے بعد میں گرفتاریوں سے بچنے کے لیے ختم کر دیا۔

ڈی آئی جی نے کہا کہ پہلے سے گرفتار سینئر سیاسی رہنماؤں کے موبائل فون کے ڈیٹا کے تجزیے سے بھی پولیس کو پارٹی کارکنوں اور 9 مئی کے پُرتشدد واقعات میں ان کے ملوث ہونے کی شناخت کرنے میں مدد ملی۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لاہور پولیس نے گزشتہ تین دنوں کے دوران تحریک انصاف کے کارکنان کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کا آغاز کیا ہے اور 90 سے زائد کو گرفتار کر لیا۔

عمران کشور نے الزام عائد کیا کہ سب سے اہم گرفتاری پی ٹی آئی کے فعال کارکن الطاف محمود کی تھی جس کا نام 9 مئی حملے کی پہلے تیار کی گئی فہرست سے غائب تھا، اس نے سب سے پہلے جناح ہاؤس/کور کمانڈر ہاؤس میں کچھ سامان کو نذر آتش کیا، جب وہ پیٹرول بم اور دیگر اس جیسا آتش گیر مواد بیگ میں ڈال کر لایا۔

1958 ورکرز کے خلاف پہلے کی جانے والی کارروائی کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 1300 پارٹی کارکنان کو پہلے لاہور پولیس تحقیقاتی ونگ نے ان کے گھر اور دیگر مقامات پر چھاپے کے دوران گرفتار کیا تھا، جہاں وہ حساس اداروں کی عمارتوں پر حملہ کرنے کے الزام میں ان کے خلاف درج ایف آئی آر کے تناظر میں چھپ کر بیٹھے تھے۔

ڈی آئی جی نے کہا کہ ان میں سے 294 بعد میں بے قصور ثابت ہوئے، 334 کو اشتہاری مجرم قرار دے دیا گیا کیونکہ وہ روپوش ہوگئے تھے جبکہ 315 افراد عدالتوں سے ضمانت لینے میں کامیاب ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں