دہشتگردی میں اضافے کا سبب کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ 2018 کا معاہدہ ہے، اسحٰق ڈار

11 نومبر 2023
اسحٰق ڈار نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف فوری کارروائی کرنے کی ضرورت ہے—فائل فوٹو: اے پی پی
اسحٰق ڈار نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف فوری کارروائی کرنے کی ضرورت ہے—فائل فوٹو: اے پی پی

سینیٹ میں گزشتہ روز ملک میں جاری دہشتگردی کی کارروائیوں اور پاکستان سے غیر قانونی تارکین وطن کے انخلا پر بحث ہوئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ میں قائد ایوان اور رہنما مسلم لیگ (ن) اسحٰق ڈار نے نہ کہا کہ ملک میں دہشتگردی میں اضافے کا سبب افغانستان کے ساتھ 2018 میں طے پانے والی مفاہمت اور اس کے نتیجے میں کالعدم ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی رہائی ہے۔

سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد دہشت گردی کی لعنت کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جس کے ثمرات سامنے آئے لیکن افسوس ہے کہ 2018 میں یو ٹرن کی پالیسی اپنائے جانے کے بعد اس نے دوبارہ سر اٹھا لیا۔

2014 میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ ملحقہ شمالی وزیرستان میں شروع کیے گئے آپریشن ضرب عضب کا حوالہ دیتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا، اس آپریشن کے لیے 100 ارب روپے سالانہ درکار تھے، ابتدائی طور پر یہ آپریشن ایک سال میں مکمل ہونے کی امید تھی لیکن بالآخر اس میں 4 سال لگ گئے۔

انہوں نے آپریشن ردالفساد کا بھی ذکر کیا جو ملک بھر میں دہشت گردوں کے سلیپر سیلز کو ختم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔

اسحٰق ڈار نے چیئرمین سے درخواست کی کہ وہ نگران حکومت سے اس معاملے پر سینیٹ کو ان کیمرہ بریفنگ دینے کو کہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ اعدادوشمار دیکھ سکتے ہیں، 2013، 2014، 2016 اور 2017 میں کیا صورتحال تھی، 2018 کے بعد پالیسی میں تبدیلی دیکھی گئی۔

انہوں نے کہا کہ کابل میں طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد پاکستان سے افغانستان کا ایک اعلیٰ سطح کا دورہ ہوا، یہ سلسلہ وہیں نہیں رکا، کابل میں طے پانے والے ایک مفاہمت کے تحت سیکڑوں خطرناک دہشت گردوں کو رہا کر دیا گیا۔

انہوں نے سوال کیا کہ یہ فیصلہ کس سوچ کے تحت کیا گیا؟ کوئی قوم کو بتائے گا؟ قوم کو اس کے بارے میں تب پتا چلا جب پاکستانی عہدیداران کے دورہ کابل اور وہاں مذاکرات کی تصاویر منظر عام پر آئیں۔

دہشت گردی کے خلاف فوری کارروائی کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے لیے فروری 2024 کے انتخابات کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔

قبل ازیں پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ ملک میں 2023 کی پہلی ششماہی کے دوران کُل 271 حملے ہوئے، جن میں 389 افراد جان سے گئے اور 656 زخمی ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال کے دوسرے حصے میں بھی کوئی بہتری نظر نہیں آتی، ملک سے غیرقانونی افغانوں کی واپسی کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں اور مسلح افواج کی تنصیبات پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ یہ بات ذہن میں رہے کہ نگران حکومت نے قومی سلامتی سے متعلق یہ ایک ایسا اہم پالیسی فیصلہ لیا ہے، جو شاید اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا اور اس معاملے پر سینیٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک اور وجہ شاید سی پیک ہو سکتی ہے کیونکہ مغربی طاقتیں چین کو محدود کرنے کے لیے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں مدد کر رہی ہیں، ان مغربی طاقتوں کے لیے بھارت چین پر قابو پانے والا خطہ کا نمبر ایک ملک بن گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافے کا اس ڈیل سے بھی براہ راست تعلق ہے جو ہم نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ کیا تھا، یہ کہا جاتا ہے کہ یہ معاہدہ کالعدم ٹی ٹی پی کو سیاسی حکومت کا عسکری ونگ بنانے کے لیے کیا گیا تھا، اس معاہدے کی شرائط آج تک منظر عام پر نہیں آئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں