بلوچستان سے کراچی منتقل ہونے کے چند گھنٹوں بعد کانگو سے متاثر ایک اور شخص انتقال کرگیا، جس سے شہر میں ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں اس بیماری سے اموات کی تعداد تین ہوگئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت نے بتایا کہ 35 سالہ شخص جمعہ کی صبح تشویشناک حالت میں حکومت سندھ کے زیر انتظام انفیکشنز ڈیزیز ہسپتال اور ریسرچ سینٹر میں لایا گیا تھا۔

محکمہ صحت کے ترجمان شبیر علی بابر کا کہنا تھا کہ انہیں فوری طور پر انتہائی نگہداشت میں وینٹیلیٹر پر رکھا گیا تھا، دوپہر میں ان کا انتقال ہو گیا۔

ایک ڈاکٹر سمیت تمام مرنے والوں کا تعلق بلوچستان سے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 16 مریضوں کو حال ہی میں بلوچستان سے کراچی کے نجی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے، جن میں سے کا اکثریت صحت کے شعبے سے ہے، جبکہ دوسری جانب کراچی میں صرف ایک مقامی کیس رپورٹ ہوا اور وہ مریض پہلے ہی صحتیاب ہو چکا ہے۔

محکمہ صحت بلوچستان کے میڈیا کوآرڈینیٹر ڈاکٹر وسیم بیگ نے ڈان کو بتایا کہ نگران حکومت مریضوں کے بہترین علاج کے انتظام کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

ایک سینئر حکام کا کہنا تھا کہ صوبائی محکمہ صحت نے یہ دعوی کیا تھا کہ نگران حکومت مریضوں کے تمام سفری اور طبی اخراجات برداشت کرے گی۔

لیکن انہوں نے وضاحت کی کہ ایدھی فلاحی ادارے کی جانب سے فراہم کردہ ایئر ایمبولینس کی سہولت صرف ان مریضوں کو دی گئی، جن کی حالت تشویشناک تھی، باقی مریضوں کو 1122 ایمبولینس سروس کے ذریعے منتقل کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کانگو کے 17 کیسز رپورٹ ہوئے، جس میں سے دو افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے، ان کے مطابق کراچی میں انتقال کرنے والا مریض خود ہی علاج کے لیے گیا تھا اور وہ کوئٹہ کے ہسپتالوں میں رجسٹرڈ نہیں تھا۔

سندھ میں کانگو سے اموات میں اضافے پر خوف

کراچی میں کانگو سے اموات میں تیزی سے اضافے سے سندھ کے بااختیار حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کیونکہ صوبائی انتظامیہ نے ہدایت جاری کی کہ بلوچستان اور سندھ کی سرحد سے متصل علاقوں کے درمیان لوگوں کے نقل و حمل کی نگرانی کی جائے اور ضلع میں طبی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں میں مؤثر اقدامات کیے جائیں تاکہ یہاں کانگو کے ممکنہ پھیلاؤ کی روک تھام کی جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کو کریمین کانگو ہیمرجک بخار (سی سی ایچ ایف) کا سامنا ہے اور کراچی کے ہسپتالوں میں کئی افراد زیر علاج ہیں، اس ہفتے کراچی میں کانگو وائرس سے اب تک تین اموات رپورٹ ہو چکی ہیں۔

محکمہ صحت بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں کانگو انفیکشن کی وجہ سے پچھلے سال 21 اموات ریکارڈ کی گئی اور اس سال اب تک 20 مریض لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

ماہریں صحت نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ ٹکس سے پیدا ہونے والی بیماری سے سندھ بھی متاثر ہو سکتا ہے، اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ متاثرہ مریض علاج کی خاطر دوسرے شہروں کا سفر کر رہے ہیں اور مویشیوں کی بھی معمول کے مطابق دونوں صوبوں کے درمیان منتقلی جاری ہے۔

محکمہ صحت سندھ کے ایک افسر نے بتایا کہ حال ہی میں کوئٹہ کے متاثرہ شہری کا انتقال کراچی کے سرکاری ہسپتال میں ہوا جبکہ ایک درجن سے بھی زائد شعبہ صحت کے لوگ کراچی شہر کے نجی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

افسر نے احتیاطی تدابیر کی ضرورت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال نے عوام سمیت سرکاری حلقوں میں تشویش پیدا کردی ہے، جن کو یہ لگتا ہے کہ اگر مریضوں کی متاثرہ جگہ سے دیگر علاقوں میں منتقلی جاری رہی تو کوئٹہ کی یہ وبا سندھ کے سرحدی علاقوں سے متصل مقامات میں پھیل جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان میں مویشی منڈیوں میں احتیاطی تدابیر نہیں کی جا رہیں، جس کے نتیجے میں عوام اس انفیکشن سے متاثر ہوئے، انہوں نے بتایا کہ کراچی میں اب رپورٹ ہونے والے مریضوں کا تعلق شعبہ صحت سے نہیں ہے۔

وزیر اعلی ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق جسٹس (ر) مقبول باقر نے احتیاطی تدابیر کے لیے عوامی آگاہی مہم چلانے کی ہدایت دی، جس میں بالخصوص سرحدی علاقوں میں مویشی منڈی کی مانیٹرنگ سمیت کیڑے مار دوا اور حفاظتی لباس کا استعمال شامل ہے۔

دریں اثنا محکمہ صحت سندھ نے ضلعی افسران کو الرٹ کردیا اور ہسپتالوں کو ہدایت دی کہ سندھ بھر میں آئسولیشن یونٹس قائم کیے جائیں اور سختی سے انفیکشن سے بچاؤ کے اقدامات لیے جائیں۔

محکمہ صحت کے ترجمان شبیر علی نے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ آفس میں ایک مانیٹرنگ سیل قائم کیا گیا ہے، طبی سہولیات فراہم کرنے والوں کو صحت کے عملے کو ذاتی حفاظتی سامان فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی، ان کا مزید کہنا تھا کہ ہائی رسک والے علاقوں میں آگاہی سرگرمیاں شروع کرنے کی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں