عمران خان کے خلاف سائفر کیس کی جیل میں سماعت روکنے کا حکم

اپ ڈیٹ 14 نومبر 2023
انٹراکورٹ اپیل پر جسٹس میاں گل حسن اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: آئی ایچ سی ویب سائٹ
انٹراکورٹ اپیل پر جسٹس میاں گل حسن اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: آئی ایچ سی ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کے ٹرائل میں 16 نومبر تک حکم امتناع جاری کرتے ہوئے پرسوں تک سماعت روکنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اوپن کورٹ سماعت اور جج تعیناتی کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر جسٹس میاں گل حسن اورجسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا اور ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی بھی عدالت میں پیش ہوئے، اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کیا اور عدالت کو ٹرائل کی کارروائی سے متعلق آگاہ کیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ خاندان کے چند افراد کو سماعت میں جانے کی اجازت کا مطلب اوپن کورٹ نہیں، جس طرح سے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کی گئی اسے بھی اوپن کورٹ کی کارروائی نہیں کہہ سکتے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل کی منظوری دی، وفاقی کابینہ کی جیل ٹرائل منظوری کا نوٹی فکیشن عدالت کے سامنے پیش کر دیں گے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ وہ نوٹی فکیشن ہم دیکھیں گے اس میں کیا لکھا ہوا ہے، تمام ٹرائلز اوپن کورٹ میں ہوں گے اس طرح تو یہ ٹرائل غیر معمولی ٹرائل ہو گا، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ایسے کیا غیر معمولی حالات تھے کہ یہ ٹرائل اس طرح چلایا جارہا ہے؟ آپ نے ہمیں بتانا ہے کہ دراصل ہوا کیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تمام متعلقہ اداروں سے ریکارڈ لے کر عدالت کے سامنے رکھ دوں گا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات دینے کی ضرورت ہے، وفاقی کابینہ نے دو دن پہلے جیل ٹرائل کی منظوری دی، کیا وجوہات تھیں کہ وفاقی کابینہ نے جیل ٹرائل کی منظوری دی؟

عدالت نے اٹارنی جنرل سے مزید استفسار کیا کہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ منظوری سے پہلے ہونے والی عدالتی کارروائی کا اسٹیٹس کیا ہو گا؟ کب کن حالات میں کسی بنیاد پر یہ فیصلہ ہوا کہ جیل ٹرائل ہو گا۔

اس دوران عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 5 گواہ اس وقت بھی جیل میں بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے موجود ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں تینوں نوٹی فکیشنز ہائی کورٹ کے متعلقہ رولز کے مطابق نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! شاید میں زیادہ بول رہا ہوں، ایک جج کو زیادہ بات نہیں کرنی چاہیے، ویک اینڈ پر مجھے اس کیس کے بارے قانون پڑھنے کا موقع ملا، ہمارے ریڈر آپ کو این جے پی ایم سی کا فیصلہ فراہم کریں گے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید ریمارکس دیے کہ سائفر کیس ٹرائل کرنے والے جج کی تعیناتی ایگزیکٹو کی طرف سے کی گئی، ہمارے چیف جسٹس سے مشاورت کی گئی لیکن تعیناتی ایگزیکٹو نے کی، اب جو ٹرائل جیل میں ہو رہا ہے وہ ہش ہش نہیں ہونا چاہیے۔

ریمارکس کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مثال پیش کی کہ اندرا گاندھی کے کیس میں بھی ٹرائل تہاڑ جیل میں ہوا تھا، جب فیصلے کو اس بنیاد پر چیلنج کیا گیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ وہاں میڈیا کو بھی اجازت تھی، وہاں بھی ایک سابق وزیر اعظم کا کیس تھا، یہاں بھی سابق وزیر اعظم کا کیس ہے۔

دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کے ٹرائل میں 16 نومبر تک حکم امتناع جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے جواب طلب کرلیا اور پرسوں تک سائفر کیس کی سماعت روکنے کا حکم دے دیا۔

سماعت غیرآئینی قرار دی گئی تو اب تک کی تمام کارروائی کو حذف کرنا ہوگا، سلمان اکرم راجا

سابق وزیر اعظم کے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری استدعا یہ تھی کہ بند کمرے میں ہونے والا جیل ٹرائل کوئی ٹرائل نہیں ہے جس میں میڈیا اور عام لوگوں کو رسائی کی اجازت نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ آئین کا بنیادی تقاضہ ہے کہ اوپن ٹرائل ہونا چاہیے، وہاں بالخصوص میڈیا اور ہر شخص کو آنے کی اجازت ہونی چاہیے، تاریکی میں ہونے والا ٹرائل کوئی ٹرائل نہیں ہے۔

سلمان اکرم راجا نے مزید کہا کہ ہماری اس بات کو عدالت نے اٹارنی جنرل کے سامنے رکھا اور استفسار کیا کہ کس طرح یہ فیصلہ ہوا کہ اس ٹرائل کو جیل میں کرنا ہے، یہ کس کے ذہن کی اختراع ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے اس بات کا نوٹس لیا کہ اٹارنی جنرل کے مطابق کابینہ نے جیل ٹرائل کا فیصلہ کل ہی کیا ہے تو پھر آج کے دن تک کیسے جیل میں سماعت ہوتی رہی، اس دوران چالان جمع کرانا اور فرد جرم عائد کرنا کیسے ممکن ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ یہ سماعت غیرآئینی طریقے سے ہوئی ہے تو اب تک کی گئی تمام کارروائی کو حذف کرنا ہوگا اور اس تمام معاملے کو دوبارہ شروع کرنا ہوگا، اس کارروائی کے حذف ہونے کا اثر دیگر مقدمات اور ان میں گرفتاریوں پر بھی پڑے گا۔

سائفر کیس

یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔

ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔

اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کیس کی گزشتہ سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں سابق وزیر اعظم اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی 26 ستمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیر مجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں