لکھاری مصنفہ ہیں۔
لکھاری مصنفہ ہیں۔

غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت سے متعلق ہم اپنے بچوں سے کیسے بات کریں؟ حماس-اسرائیل جنگ کو ایک ماہ سے زائد گزر جانے اور تقریباً 11 ہزار فلسطینیوں کے قتلِ عام کے بعد، پاکستان کے بہت سے والدین اس سوال کے جواب کے متلاشی ہیں۔

سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن کے ذریعے، دن رات غزہ پر ہونے والی بمباری کے دل دہلا دینے والے مناظر ہم تک پہنچ رہے ہیں۔ اس سب سے بچے بھی متاثر ہورہے ہیں کیونکہ وہ فلسطین تنازع کے حوالے سے اپنے والدین کی باتیں سن رہے ہیں اور اس معاملے کو سمجھنے کے لیے وہ اسکول میں اپنے اساتذہ کے ساتھ بھی گفتگو کررہے ہیں۔

اگرچہ خبر رساں ادارے نیشنل پبلک ریڈیو (این پی آر) نے اس طرح کی بحث کے لیے کچھ ضابطے تجویز کیے ہیں لیکن وہ 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے کیے گئے حملوں کے بعد جارحانہ جوابی کارروائیوں پر اسرائیل کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا رہے۔

اس میں دونوں طرف کے عوام پر جنگ کے اثرات کا ذکر کیا جارہا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ غزہ کی نصف آبادی 18 سال سے کم عمر ہے۔ یہ صورتحال ہمارے بچوں کو نہ صرف فلسطینی بچوں کے لیے بلکہ اپنے لیے بھی تشویش میں مبتلا کرتی ہے۔

ملالہ یوسف زئی پر فائرنگ، اعتزاز حسن کی قربانی اور آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ جس میں کئی طلبہ اور اساتذہ جاں بحق ہوئے، اس سب نے ہمارے بچوں کو ٹراما کا شکار کیا اور انہیں خوف میں مبتلا کیا۔ آج المیہِ فلسطین ہمارے بچوں کے انہی زخموں کو تازہ کررہا ہے۔ اس حوالے سے بچوں سے بات کرنے کا ہمارا طریقہ ان کے خوف کو دور کرنے کے لیے اہم ثابت ہوسکتا ہے۔

غزہ کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے گفتگو کرنے کے لیے والدین کو اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اپنے سیاسی نظریات بیان کرنے کے بجائے بچوں کو سوال کرنے کا حوصلہ دیں جوکہ زیادہ مددگار ثابت ہوگا۔ بچوں کو ہر اس چیز کے حوالے سے محتاط رہنے کی تعلیم دی جانی چاہیے جو وہ انٹرنیٹ پر دیکھ رہے ہیں اور ان سے کہا جائے کہ وہ غلط معلومات پھیلانے سے گریز کریں۔

انہیں ٹیلی ویژن یا سوشل میڈیا پر پُرتشدد مناظر دیکھنے سے بچانا ہوگا، حالانکہ ان مناظر کو نہ دیکھنا انتہائی مشکل ہے۔ موجودہ صورتحال آپ اور آپ کے بچوں کے لیے ایک ساتھ اس خطے کی تاریخ جاننے کا اچھا موقع ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ بچوں کو یہ امید دی جائے کہ بدترین حالات میں بھی امن اور مفاہمت ممکن ہے۔

رواں ماہ آرٹس کونسل کراچی میں پاکستان لرننگ فیسٹیول (پی ایل ایف) کا انعقاد ہوا۔ پی ایل ایف جوکہ پہلے چلڈرن لیٹریچر فیسٹیول کے نام سے جانا جاتا تھا، ملک کے کامیاب ترین لرننگ فیسٹیولز میں شمار کیا جاتا ہے۔

12 برس سے ملک بھر میں اس کا انعقاد ہورہا ہے جس میں بچوں کو قصہ گوئی، مباحثوں کے سیشنز، تعلیمی سرگرمیوں میں براہِ راست شرکت اور تفریح کے ذریعے کچھ سکھایا جاتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ معروف فنکار اور اس فیسٹیول کی شریک بانی رومانہ حسین نے سوچا کہ یہ فیسٹیول بچوں سے غزہ کے تنازع کے بارے میں بات کرنے کا اچھا موقع ہے۔

انہوں نے فیس بُک پر پوچھا کہ کیا کسی کو فلسطین سے متعلق بچوں کی کسی کتاب تک رسائی حاصل ہے اور ساتھ ہی ان کتابوں کے نام بھی شیئر کیے جن کے حوالے سے انہوں نے تحقیق کی اور انہیں بچوں کے لیے موزوں سمجھا۔ یہ کتابیں پاکستان میں دستیاب نہیں تھیں تو میں نے اشاعتی اداروں سے مدد طلب کرنے کا فیصلہ کیا اور ان سے کہا کہ کیا وہ ان کتابوں کی کاپی پی ایل ایف کے لیے بھجواسکتے ہیں۔ میں نے رومانہ سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو میں اس سیشن میں ان کی مدد بھی کرسکتی ہوں اور یوں ہم نے اردو اور انگریزی میں کہانیوں کا مشترکہ سیشن منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔

ایک ناشر نے میری درخواست کا جواب دیا اور وہ امریکی ریاست میساچوسٹس میں انٹرلنک بُکس کے مشیل ماؤشابیک تھے۔ کتاب کا نام ’سِتیز برڈ: اے غزہ اسٹوری‘ ہے جسے بچوں کے لیے مصوَر شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی السٹریٹر فلسطینی فنکارہ ملاک مطر ہیں۔ سِتیز برڈ غزہ میں پرورش پانے اور فنکار بننے کا خواب دیکھنے والی ملاک مطر کی اپنی کہانی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ جب دوسری انتفاضہ میں اسرائیل نے غزہ پر بمباری کی تو وہ اور ان کا خاندان 50 دنوں تک اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکے تھے۔ مشیل نے ہمیں اس کتاب کی پی ڈی ایف بھیجی اور ساتھ ہی ہمیں اسے اپنے سیشن میں استعمال کرنے کی اجازت بھی دی۔

رومانہ حسین نے اس پی ڈی ایف سے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن بنائی اور ساتھ ہی اس میں انہوں نے اسرائیل اور فلسطین کے نقشے کو بھی شامل کیا تاکہ دونوں ممالک کے جغرافیے پر بھی بچوں سے بات کی جاسکے۔

سیشن کے پہلے روز رومانہ نے اعلان کیا، ’ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا کہ ہم مذہب یا قومیت کی بنیاد پر کسی سے نفرت نہ کریں پھر چاہے وہ مسلم ہوں، عیسائی، یہودی، ہندو یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ یہودی بھی اہلِ کتاب ہیں اور بہت سے یہودی لوگ غزہ میں بےگناہ شہریوں پر بمباری کرنے کے خلاف بھی ہیں‘۔

بچوں نے پہلے دلچسپی سے کہانی سنی۔ میں ایک ایک صفحہ انگریزی میں پڑھتی گئی اور رومانہ اسے اردو میں بیان کرتی رہیں۔ میں نے بھرپور کوشش کی کہ کہانی کو ڈرامائی انداز میں پڑھوں اور بچے اس کہانی کے سحر میں اس قدر مبتلا ہوگئے تھے کہ وہ بم گرنے کی آوازیں، اسکول بند ہونے، کم عمر ملاک مطر کے خوف اور اپنی پیاری سِتی کے ساتھ ان کے تعلقات کو محسوس کررہے تھے۔ فلسطینی اور مصری عربی زبان میں دادی کو ’سِتی‘ کہتے ہیں۔

اگلے روز ہم نے الگ اور کم حاضرین کے سامنے یہی کہانی پیش کی۔ جب میں نے نشستوں پر بیٹھے بچوں کو دیکھا تو ثانوی اسکول کی لڑکیوں کا ایک گروپ ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھا جن میں ’سیو فلسطین اور فری فلسطین‘ لکھا ہوا تھا جبکہ ان پلے کارڈز پر غزہ میں تباہی کے مناظر بھی موجود تھے۔

ہم نے اعلان کیا کہ کہانی ختم ہونے کے بعد یہ بچے اسٹیج پر آکر ہمارے ساتھ تصویر لے سکتے ہیں۔ جب وہ اسٹیج پر آئے تو میں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنے ماتھے پر پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور دیگر مسلم ممالک کے جھنڈے چسپاں کیے ہوئے تھے اور اپنے منہ پر ٹیپ لگایا ہوا تھا۔

بچیوں نے منہ پر ٹیپ لگا کر احتجاج ریکارڈ کیا—تصویر: فیس بک
بچیوں نے منہ پر ٹیپ لگا کر احتجاج ریکارڈ کیا—تصویر: فیس بک

وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے اور احتجاجاً دو منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ ایک بچی نے اپنے ہاتھ میں اپنے اسکول کے نام کا پلے کارڈ اٹھایا ہوا تھا اور یہ اسکول ملیر کا ایک عام سا اسکول تھا۔

میں نے رومانہ کے بین المذاہب ہم آہنگی کے پیغام کے بارے میں سوچا اور یہ کہ پاکستانی فیسٹیول کے لیے یہ کتنا مختلف تھا۔ میں نے ان لڑکیوں کی سیاسی آگہی اور تحرک کے حوالے سے سوچا۔ میں نے یہ بھی سوچا کہ کیسے مختلف ممالک میں اپنا فن پہنچانے کا ملاک مطر کا خواب اس ہفتے پورا ہوا۔ مجھے احساس ہوا کہ اگر پاکستان کے لیے کوئی امید باقی ہے تو وہ انہیں بچوں سے ہے۔


یہ مضمون 17 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں