بحریہ ٹاؤن کراچی کیس: سروے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع، معاہدے سے زائد زمین پر قبضے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2023
مذکورہ رپوٹ سپارکو، سروے آف پاکستان، فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے تیار کی گئی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
مذکورہ رپوٹ سپارکو، سروے آف پاکستان، فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے تیار کی گئی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں کمشنر کراچی کی سربراہی میں 10 رکنی سروے ٹیم کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے پاس معاہدے سے زائد زمین پر قبضے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔

بحریہ ٹاؤن کراچی سے متعلق سپریم کورٹ کے 2019 کے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق کیس میں سروے ٹیم نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت بحریہ ٹاؤن کراچی کا 16 ہزار 896 ایکڑ زمین کا معاہدہ ہوا، اس وقت بحریہ ٹاؤن 19 ہزار 931 ایکڑ زمین کا قبضہ رکھتا ہے، بحریہ ٹاؤن معاہدے سے 3 ہزار 31 ایکڑ زائد زمین پر قابض ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈسٹرکٹ ملیر میں 813 ایکڑ جبکہ جامشورو میں 2 ہزار 222 ایکڑ زائد زمین بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں ہے، بحریہ ٹاؤن کی جانب سے محفوظ کیے گئے جنگل کی زمین پر قبضہ کیا گیا ہے۔

مذکورہ رپوٹ سپارکو، سروے آف پاکستان، فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ 8 نومبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین کی پیمائش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سندھ اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کو بحریہ ٹاؤن کے نمائندے کے ہمراہ سروے کر کے 23 نومبر (آج) تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

عدالت نے سروے رپورٹ 23 نومبر کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے 19کروڑ پاؤنڈ اور بحریہ ٹاؤن سے متعلق درخواستیں 23 نومبر کو (آج) مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 18 اکتوبر کو ڈھائی سال کے طویل عرصے کے بعد بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تھی۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں 7 درخواستوں پر سماعت کی تھی۔

بعد ازاں 20 اکتوبر کو اِس سماعت کا حکم نامہ جاری کیا گیا تھا، حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کیس میں 10 مختلف اداروں اور افراد کو نوٹس جاری کردیے تھے جنہوں نے مبینہ طور پر بیرون ملک سے تقریباً 13 کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ اور تقریباً 4 کروڑ 40 لاکھ ڈالر (اس وقت کے تقریباً 35 ارب روپے) بھیجے۔

قبل ازیں 21 مئی 2021 کو ہونے والی سماعت میں بینچ کو بتایا گیا تھا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اسلام آباد اور کراچی میں کم قیمت پر مکانات تعیمر کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن پاکستان کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ کے سامنے یہ معلومات پیش کی گئیں جس کو ملیر (سندھ) میں بحریہ ٹاؤن ڈیولپرز کی زمین کے حصول کے لیے ادائیگی کا شیڈول کے ساتھ منجمد کردیا گیا تھا۔

قبل ازیں سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) میں 16 ہزار ایکڑ زمین کی خریداری کے لیے 21 مارچ 2019 کو ڈیولپرز کی جانب سے 460 ارب روپے کی پیش کش قبول کی تھی لیکن چند شرائط و ضوابط مقرر کیے تھے۔

عدالت نے سپریم کورٹ کے 4 مئی 2018 کے فیصلے پر عمل درآمد کی پیش کش قبول کی جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو زمین کی منظوری، نجی لینڈ ڈیولپرز (بحریہ ٹاؤن) کی زمین کے ساتھ اس کا تبادلہ اور حکومت سندھ کی طرف سے کالونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈ ایکٹ 1912 کی دفعات کے تحت جو کچھ بھی کیا گیا وہ غیر قانونی تھا جس کا کوئی قانونی وجود نہیں تھا۔

فیصلے میں اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ زمین منافع بخش ہاؤسنگ اسکیم کے لیے دی گئی تھی لیکن ایم ڈی اے نے اس کے بجائے اپنی نجی ہاؤسنگ اسکیم شروع کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کے ساتھ اس کا تبادلہ کیا۔

اس سے قبل 16 دسمبر 2020 کو سپریم کورٹ نے کورونا وائرس سے متعلق معاشی کساد بازاری کی وجہ سے 2.5 ارب روپے کی ماہانہ قسط کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کو 3 سال کی چھوٹ دینے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

بحریہ ٹاؤن کراچی نے کورونا وائرس کی وجہ سے کساد بازاری کے پیش نظر سپریم کورٹ سے ادائیگی کا منصوبہ منجمد کرنے کی درخواست کی تھی اور استدعا کی گئی تھی کہ 2.5 ارب روپے کی ماہانہ اقساط کی ادائیگی 7 ستمبر 2020 سے ستمبر 2023 تک تین برسوں تک مؤخر کردی جائے۔

اسی طرح 20 اکتوبر 2020 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی طرف سے جمع کرائے گئے فنڈز جاری کرنے کے لیے اعلیٰ کمیشن تشکیل دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں