اسلام آباد کی جانب سے دہشت گرد گروپوں بالخصوص افغانستان میں مقیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کے مطالبے پر افغان طالبان کے ردعمل پر دفتر خارجہ مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار بریفینگ کے دوران افغانستان میں ان دہشت گرد گروپوں کی موجودگی اور سرگرمیوں پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے خدشات پر زور دیا۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے بتایا کہ دہشت گرد گروپوں کے افغانستان میں خفیہ ٹھکانے ہیں، پاکستان کو ان کی مستقل موجودگی پر سنگین تحفظات ہیں، اور یہ پاکستان میں مسلسل حملے کر رہے ہیں جس سے جانوں کا نقصان ہو رہا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کا یہ بیان پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان کشیدہ تعلقات کے درمیان سامنے آیا ہے، طالبان کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے اسلام آباد میں مایوسی بڑھ رہی ہے، جو پاکستان میں دہشت گردی کے متعدد حملوں میں ملوث ہیں۔

افغان طالبان کی جانب سے حکومت پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان امن مذاکرات کی حوصلہ افزائی کی ابتدائی کوششوں کے باوجود بات چیت ناکام ہو گئی ہے، جس سے تناؤ کی صورتحال بڑھی ہے۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے افغانستان میں مقیم کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر، نتیجہ خیز کارروائی کے پاکستانی مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ اب تک ٹھوس نتائج سامنے نہیں آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم یقینی طور پر بہت مایوس ہیں کہ ہم نے اس قسم کے نتائج نہیں دیکھے جس کی ہمیں افغان حکام کی جانب سے توقع ہے۔

افغان طالبان کی جانب سے کارروائی نہ کرنے کے ردعمل میں پاکستان حکام نے سخت اقدامات اٹھائے ہیں، جس میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کوملک سے بے دخل کرنا، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں سختیاں، ’ ایک دستاویزکے نظام’ کا نفاذ شامل ہے، اس نے سرحدی علاقوں میں رہنے والے افغان شہریوں کو عارضی پاس کے ذریعے پاکستان میں داخلے کا خاتمہ کر دیا ہے۔

تاہم ممتاز زہرہ بلوچ نے کابل کے ساتھ مسلسل رابطے کی اہمیت پر زور دیا۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے مزید کہا، ہم سمجھتے ہیں کہ رابطے کو جاری رہنا چاہیے اور ہم افغان حکام کو ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے کے لیے متاثر کرتے رہیں گے۔

پاکستانی مطالبات پر افغان طالبان کا ردعمل دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات کے مستقبل کی تشکیل میں ایک اہم عنصر ہوگا۔

غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں کو بے دخل کرنے کی حکومتی مہم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ رضاکارانہ طور پر ملک سے جانے والے افغان شہریوں کی تعداد کے حوالے سے حکومت مطمئن ہے، جبکہ جبری طور پر بھیجے جانے والی کی تعداد رضاکارانہ جانے والوں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں