عمران خان چاہتے ہیں سائفر کیس کے ٹرائل میں ’سابق جرنیل، امریکی سفیر‘ کو طلب کیا جائے، بابر اعوان

اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2023
بابر اعوان نے کہا کہ کسی کا مداخلت کرنا جرم نہیں لیکن مداخلت کے بارے میں بتانا جرم بن گیا—فوٹو: ڈان نیوز
بابر اعوان نے کہا کہ کسی کا مداخلت کرنا جرم نہیں لیکن مداخلت کے بارے میں بتانا جرم بن گیا—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل بابر اعوان نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ سائفر کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت ایک سابق فوجی جرنیل اور ایک امریکی سفیر کو طلب کرے۔

سائفر کیس کی سماعت کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیس سرے سے کوئی ہے ہی نہیں، کیس صرف یہ ہے کہ امریکا کا ایک تیسرے چوتھے درجے کا افسر ہمیں کہتا ہے کہ یہاں حکومت تبدیل کرو اور حکومت تبدیل ہوجاتی ہے، وہ کہتا ہے عمران خان وزیراعظم نہ رہے اور عمران خان وزیراعظم نہیں رہتے۔

بابر اعوان نے کہا کہ کسی کا مداخلت کرنا جرم نہیں لیکن مداخلت کے بارے میں بتانا جرم بن گیا، یہ محض پی ٹی آئی اور عمران خان کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے کے حربے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فرضی مقدمات ختم ہونے چاہئیں، میڈیا اور بین الاقوامی مبصرین کو ٹرائل دیکھنے کی اجازت ہونی چاہیے، عمران خان نے عدالت میں کہا ہے کہ امریکی سفارت خانے کے نمائندے کو عدالت میں بلایا جائے اور انہوں نے ایک سابق جرنیل کا بھی نام لیا۔

بابر اعوان نے مذکورہ سابق فوجی افسر کا نام نہیں بتایا، تاہم آج سائفر کیس کی سماعت میں شریک میڈیا نمائندگان نے بتایا کہ عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) قمر جاوید باجوہ کا نام لیا تھا۔

12 دسمبر کو دوبارہ فردِ جرم عائد کی جائے گی

قبل ازیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی سماعت کی۔

عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش کیا گیا، اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی اور رضوان عباسی کے علاوہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے اہل خانہ اور وکلا بابر اعوان اور عثمان گل عدالت میں پیش ہوئے، میڈیا کے 6 نمائندگان کو عدالتی کارروائی دیکھنے کی اجازت دی گئی۔

اڈیالہ جیل پہنچنے پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آج ملزمان میں سائفر کیس کی چالان نقول تقسیم ہوں گی، آج کی سماعت کے بعد سائفر کیس کے ٹرائل میں ایک ہفتے کا وقفہ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت سے متعلق جیل انتظامیہ فیصلہ کرے گی یا جج کی صوابدید ہے، میڈیا کی عدالت تک رسائی سے متعلق پراسیکیوشن کا کوئی تعلق نہیں۔

سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل عثمان گل کے تاخیر سے آنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈیڑھ گھنٹے سے انتظار کر رہا ہوں وکیل نہیں پہنچے۔

عثمان گل نے کہا دھند کی وجہ سے عدالت تاخیر سے پہنچا، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آئندہ سماعت 9 بجے شروع کی جائے۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنے وکلا کو کہیں کہ جلدی آئیں تو سماعت بھی جلدی شروع ہوگی، دونوں فریقین باہمی مشاورت سے سماعت کا ایک وقت مقرر کرلیں۔

اس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ آئندہ سماعت وقت پر شروع کی جائے اور گواہان کو بھی عدالت پیش کیا جائےگا۔

سماعت شروع ہونے پر پی ٹی آئی وکلا کی جانب سے انٹرنیشنل میڈیا کو کمرہ عدالت تک رسائی نہ ملنے کی شکایت کی گئی۔

عدالت نے وکلا کو ہدایت کی کہ ڈاکومنٹس دیکھ لیں سارے مکمل ہیں، پھر نقول تقسیم کی جائیں گی۔

وکیل صفائی نے کہا کہ کریمنل ایکٹ1952 کے تحت کاروائی کی جارہی ہے جبکہ اس کے بعد 1958 میں ترمیم بھی ہوگئی تھی، ہمیں بتایا جائے کہ کس ایکٹ کے تحت چالان کی نقول تقسیم کی جائیں گی۔،ایکٹ کی وضاحت کے بغیر عدالت کاروائی جاری نہیں رکھ سکتی، پہلے وزارت قانون کی جانب سے واضح نوٹیفکیشن جاری ہوناچاہیے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ وزارت قانون کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن واضع ہے اور عدالت قانون کے مطابق کاروائی کررہی ہے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ مجھے قانون پر عملدرآمد کرانا ہے اور قانون پر چلنا ہے، قانون کے تحت میڈیا اور پبلک کو کمرہ عدالت تک رسائی دی گئی ہے۔

وکیل صفائی نے کہا کہ یہ سارے آرٹیکل 10 اے کے تحت آئے ہیں، اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ نہیں یہ سب آرٹیکل 352 پر عمل درآمد کا نتیجہ ہے، آج نقول فراہمی کے لیے سماعت مقرر تھی، آپ بتائیں لینی ہیں یا نہیں۔

پی ٹی آئی وکلا نے نقول فراہم نہ کرنے کی استدعا کی اور اس حوالے سے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا کہا جبکہ ایف آئی اے اسپیشل پراسیکیوٹرز نے کیس کے نقول آج فراہم کرنے کی درخواست کی۔

عمران خان کے وکلا نے عدالتی سماعت پر بھی اعتراض کیا، عثمان گل ایڈوکیٹ نے کہا کہ عدالتی سماعت کے لیے جاری نوٹیفیکیشن میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، بابر اعوان نے کہا کہ جب تک نیا نوٹیفیکیشن نہیں ہوتا کارروائی آگے نہیں بڑھ سکتی۔

جج نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا ڈویژنل بینچ جج کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن درست قرار دے چکا ہے، آپ کے جو دلائل ہیں وہ ہم اپنے آرڈر میں لکھ دیتے ہیں۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو کیس کے نقول فراہم کر دیے گئے، جج نے کیس کی مزید سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف 12 دسمبر کو فردِ جرم عائد کی جائے گی۔

عدالتی کارروائی دیکھنے کی اجازت حاصل کرنے والے میڈیا نمائندگان نے اِس پیش رفت کی تصدیق کی۔

واضح رہے کہ 23 اکتوبر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت قائم خصوصی عدالت نے عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں فرد جرم عائد کردی تھی۔

25 اکتوبر کو عمران خان نے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دی تھی۔

21 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں جاری جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کی انٹراکورٹ اپیل کو منظور کرتے ہوئے جیل ٹرائل کا 29 اگست کا نوٹی فکیشن غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔

بعدازاں 23 نومبر کو سائفر کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 28 نومبر کو اسلام آباد کے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس (ایف جے سی) میں پیش کرنے کی ہدایت کردی تھی۔

28 نومبر کو عمران خان کو خصوصی عدالت میں پیش کرنے سے اڈیالہ جیل حکام نے سیکیورٹی خدشات کے سبب معذرت کرلی تھی، عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا تھا کہ کیس کا اوپن ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہی ہوگا۔

یکم دسمبر کو وفاقی وزارت داخلہ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔

2 دسمبر کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی کارروائی اڈیالہ جیل میں دوبارہ شروع ہوئی تاہم جیل حکام نے بیشتر صحافیوں کو اوپن ٹرائل میں شرکت سے روک دیا۔

سماعت کے دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی حاضری لگائی گئی جس کے بعد سماعت 4 دسمبر (آج) تک ملتوی کر دی گئی تھی۔

سائفر کیس

یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔

ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔

اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کیس کی ابتدائی سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیر مجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز) کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں