عمران خان کی نااہلی اور پارٹی سربراہی سے ہٹانے سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس پر سماعت کی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس پر سماعت کی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

الیکشن کمیشن نے سابق وزیراعظم اور بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی نااہلی اور پارٹی چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس پر سماعت کی، عمران خان کے وکیل شعیب شاہین اور درخواست گزار خالد محمود ایڈوکیٹ الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔

شعیب شاہین نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم نے انٹرا پارٹی انتخابات کا ریکارڈ الیکشن کمیشن میں جمع کروادیا ہے، اب اس کیس کو ختم ہوجانا چاہیے، قانونی طور پر یہ معاملہ ختم ہوگیا ہے کیونکہ پارٹی کا نیا چئیرمین آگیا ہے۔

شعیب شاہین نے مزید کہا کہ اگر آپ اس کیس کو چلانا چاہتے ہیں تو اکبر ایس بابر پٹیشن دائر کر رہے ہیں، اس کے ساتھ چلا لیں۔

اس پر چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس میں کہا کہ آپ خالد محمود کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ نئے چئیرمین کے خلاف بھی پٹیشن دائر کریں۔

درخواست گزار خالد محمود ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کسی نے تسلیم نہیں کیا۔

خالد محمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے بھی انٹر پارٹی الیکشن کو تسلیم نہیں کیا، آپ آرڈر میں لکھ کر دے دیں کہ عمران خان سزا یافتہ ہیں اور وہ پارٹی کا کوئی عہدہ رکھ نہیں سکتے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عمران خان نے الیکشن لڑا ہی نہیں، اس میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔

بعدازاں الیکشن کمیشن نے عمران خان کی نااہلی اور پارٹی چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نااہلی کے بعد بھی بطور سربراہ پارٹی عہدے پر برقرار رہنے کے حوالے سے وضاحت طلب کی تھی۔

توشہ خانہ کیس کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو چیئرمین پی ٹی آئی کے عہدے سے ہٹانے کے لیے کارروائی شروع کی تھی، مذکورہ فیصلے میں عمران خان کو جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے فروری 2018 میں الیکشنز ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 62 (ون) (ایف)کے تحت نواز شریف کو نااہل کیے جانے کے بعد اس فیصلے نے انہیں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کے عہدے سے ہٹانے کی راہ ہموار کردی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں