لاہور ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی توہین الیکشن کمیشن کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف درخواست فل بینچ میں پیش کرنے کی سفارش کر دی۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے توہین الیکشن کمیشن کی کارروائی میں جیل ٹرائل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔

جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ اسی نوعیت کی درخواست فل بینچ کے روبرو زیر سماعت ہے۔

مزید کہا کہ اب تک کتنے کیسز میں جیل ٹرائل کا نوٹی فکیشن ہوچکا ہے، جس پر وکیل اشتیاق اے خان نے عدالت کو بتایا کہ سائفر اور القادر ٹرسٹ سے متعلق کیسز کا جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن ہوا ہے ۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے وہ تمام ریکارڈ درخواست کے ساتھ لگایا ہے۔

جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ ہم ایک کیس میں آرڈر کردیں تو باقیوں پر کیا اثر ہوگا، انہوں نے درخواست گزار کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ تمام ریکارڈ فراہم کریں۔

وکیل بانی پی ٹی آئی نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن 13 دسمبر کو جیل ٹرائل کے لیے پہنچ جائے گا، جس پر جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ آپ کے پاس 100 وکلا کی ٹیم ہے، فوری ریکارڈ منگوا کر ساتھ لگا دیں۔

وکیل اشتیاق اے خان نے کہا کہ ہم ریکارڈ فراہم کر دیتے ہیں آپ درخواست کو کل کےلیے مقرر کردیں، جس پر جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ آپ متفرق درخواست کے ذریعے تمام دستاویزات لف کردیں، پھر دیکھتے ہیں۔

جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ یہی عدالتی طریقہ کار ہے۔

بعد ازاں، جسٹس عالیہ نیلم نے درخواست کو فل بینچ میں پیش کرنے کی سفارش کر دی، عدالت نے کیس کی فائل چیف جسٹس کو بھجوا دی

عدالت نے بانی پی ٹی آئی کے کیسز میں جیل ٹرائل کے نوٹی فکیشن سے متعلق تمام ریکارڈ کو درخواست کے ساتھ لگانے کی ہدایت کردی۔

واضح رہے کہ 9 دسمبر کو سابق چیئرمین تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے توہین الیکشن کمیشن کی کارروائی اور جیل ٹرائل کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔

سابق وزیر اعظم نے اپنے وکلا سلمان اکرم راجا اور بیرسٹر سمیر کھوسہ کے توسط سے عدالت میں ان کارروائیوں کے خلاف درخواست دائر کردی، درخواست میں وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن اور اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔

پس منظر

واضح رہے کہ 21 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں جاری جیل ٹرائل کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی انٹراکورٹ اپیل کو منظور کرتے ہوئے جیل ٹرائل کا 29 اگست کا نوٹی فکیشن غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔

بعدازاں 23 نومبر کو سائفر کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 28 نومبر کو اسلام آباد کے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس (ایف جے سی) میں پیش کرنے کی ہدایت کردی تھی۔

28 نومبر کو عمران خان کو خصوصی عدالت میں پیش کرنے سے اڈیالہ جیل حکام نے سیکیورٹی خدشات کے سبب معذرت کرلی تھی، عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا تھا کہ کیس کا اوپن ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہی ہوگا۔

یکم دسمبر کو وفاقی وزارت داخلہ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ گزشتہ سال اگست میں الیکشن کمیشن نے عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو مختلف جلسوں، پریس کانفرنسز اور متعدد انٹرویوز کے دوران الزمات عائد کرنے پر الیکشن کمیشن کی توہین اور ساتھ ہی عمران خان کو توہین چیف الیکشن کمشنر کا نوٹس بھی جاری کیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے نوٹس میں عمران خان کے مختلف بیانات، تقاریر، پریس کانفرنسز کے دوران اپنے خلاف عائد ہونے والے بے بنیاد الزامات اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف استعمال ہونے والے الفاظ، غلط بیانات و من گھڑت الزامات کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کو 30 اگست کو اپنے جواب کے ساتھ کمیشن میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا تھا۔

ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو توہین الیکشن کمیشن کے نوٹسز جاری کیے ہیں اور کہا گیا ہے کہ 30 اگست کو ذاتی حیثیت یا بذریعہ وکیل پیش ہوں۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ پیمرا کے ریکارڈ کے مطابق عمران خان نے 11 مئی، 16 مئی، 29 جون، 19، 20 جولائی اور 7 اگست کو اپنی تقاریر، پریس کانفرنسز اور بیانات میں الیکشن کمیشن کے خلاف مضحکہ خیز اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کی، توہین آمیز بیانات دیے اور بے بنیاد الزامات عائد کیے جو براہ راست مرکزی ٹی وی چینلز پر نشر ہوئے۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو مخاطب کرکے نوٹس میں مزید کہا تھا کہ آپ نے 12 جولائی کو بھکر میں ہونے والے جلسے میں خطاب کیا جو ’اے آر وائی‘ پر نشر ہوا اور ساتھ ہی اگلے دن روزنامہ ’ڈان‘ میں شائع ہوا، جس میں آپ نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف توہین آمیز باتیں کیں اور ان پر من گھڑت الزامات عائد کیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں