اسلام آباد ہائیکورٹ: سائفر کیس کے ٹرائل پر فوری حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد

اپ ڈیٹ 28 دسمبر 2023
عمران خان کی درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی—فائل فوٹو: ڈان
عمران خان کی درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی—فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں ٹرائل پر فوری حکم امتناع کی استدعا مسترد کر دی۔

سائفر کیس سے متعلق ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کے خلاف عمران خان کی درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل عثمان گل روسٹرم پر آگئے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریماکرس دیے کہ یہ معاملہ پہلے ایک درخواست میں بھی سامنے آیا تھا، پراسکیوشن کے مطابق کابینہ کی منظوری کے بعد کیس فائل کیا گیا۔

عمران خان کے وکیل عثمان ریاض گل نے کہا کہ اس درخواست میں ہمارا کیس یہ ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ ایک اسپیشل لا ہے، اسپیشل لا ہونے کی وجہ سے اس کے تحت ہونے والی کارروائی کے لیے بھی خصوصی طریقہ اپنایا جائے گا۔

انہوں نے مزیدکہا کہ قانون میں لفظ شکایت لکھا ہے نہ کہ ایف آئی آر، ہماری درخواست کی سپورٹ میں کافی سارے عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں، ایف آئی آر ہمیشہ سکیشن 154 کے تحت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ حکومت کی منظوری سے ایک کمپلینٹ مجسٹریٹ کے روبرو درج کی جانی چاہیے تھے، بانی پی ٹی آئی کے خلاف کیس میں ایف آئی آر درج کی گئی ، شکایت مجسٹریٹ کو نہیں بھجوائی گئی۔

عمران خان کے وکیل نے 12 دسمبر کا عدالتی آرڈر پڑھ کر سنایا، عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 13 کی سب سیکشن 3 کے تقاضے کے مطابق عدالتی کاروائی نہیں ہو رہی۔

عثمان ریاض گل نے کہا کہ قانون میں لفظ کمپلینٹ کا ذکر کیا گیا ایف آئی آر کا ذکر نہیں، یہ اسپیشل قانون ہے اسی کے تحت عدالتی کاروائی ممکن ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ آپ کا پوائنٹ کیا ہے؟ کون سا تقاضا پورا نہیں کیا گیا؟

عثمان ریاض گل نے مؤقف اختیار کیا کہ قانونی طور پر حکومت کا مجاز افسر براہ راست عدالت میں کمپلینٹ دائر کرسکتا ہے، اس کیس میں کمپلینٹ کی بجائے ایف آئی آر درج کی گئی، روزانہ کی بنیاد پر یہ کیس چل رہا ہے، 25 گواہ کا بیان ریکارڈ اور 3 پر جرح ہوگئی، مجموعی طور پر 28 گواہ ہیں۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ٹرائل کورٹ کو 5، 6 دن بعد کیس کی سماعت کرنے کی ہدایت کی جائے، ٹرائل کورٹ اس دوران ٹرائل مکمل کرسکتی ہے۔

عمران خان کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے سائفر ٹرائل پر حکم امتناع دینے کی استدعا کی، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر ٹرائل پر حکم امتناع کی فوری استدعا مسترد کر دی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ پہلے نوٹس ہوں گے، ہم پہلے نوٹس جاری کررہے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں دائر درخواست پر وفاق کو نوٹس جاری کر دیے جسے کمرہ عدالت میں موجود ایف آئی اے پراسکیوٹر نے وصول کرلیا، عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر سائفر ٹرائل سے متعلق تمام ضروری دستاویزات جمع کرائی جائیں۔

واضح رہے کہ عمران خان نے فرد جرم سمیت سائفر کیس کی اب تک کی کارروائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جسے 19 دسمبر کو اعتراضات لگا کر سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔

سائفر کیس

یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔

ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔

اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کیس کی ابتدائی سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیر مجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز) کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں