سپریم کورٹ نے انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹادی۔

آج سماعت سے قبل ہی تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست واپس لے لی، پی ٹی آئی کے رہنما لطیف کھوسہ نے درخواست واپس لینے کا اعلان کیا۔

عام انتخابات میں لیول پلئینگ فیلڈ فراہم کرنے سے متعلق توہین عدالت کی درخواست پر چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں الیکشن کمیشن سے کوئی توقع نہیں، اب ہم عوام کے پاس جا رہے ہیں ، پی ٹی آئی کو مختلف انتخابی نشانات دیے گئے، ساری پارٹی کو تتر بتر کر دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے عدالتی فیصلہ تسلیم کرنا ہے، کریں، نہیں کرنا، نہ کریں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ نے تو پی ٹی آئی کی فیلڈ ہی چھین لی، تحریک انصاف کا شیرازہ ہی بکھیر دیا گیا ہے، الیکشن کمیشن صرف انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے، ایک جماعت کو پارلیمان سے باہر کرکے بین کیا جا رہا ہے، پی ٹی آئی کے تمام امیدوار آزاد انتخابات لڑیں گے اور کنفیوژن کا شکار ہوں گے۔

عدالت کے فیصلے سے جمہوریت تباہ ہو جائے گی، لطیف کھوسہ

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے انتخابات شفاف نہیں ہیں؟ وکیل تحریک انصاف نے جواب دیا کہ انتخابات بالکل غیرمنصفانہ ہیں، ہم نے عدلیہ کے لیے خون دیا، قربانیاں دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب آپ ہمیں بھی بولنے کی اجازت دیں، دوسرے کیس کی بات اس کیس میں کرنا مناسب نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ لیول پلئنگ فیلڈ کیس پی ٹی آئی نے واپس لے لیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ‏ہم نے جو فیصلہ کیا، اس کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں، عدالت نے واپس لینے کی بنیاد پر درخواست کو نمٹا دیا گیا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت کے فیصلے سے جمہوریت تباہ ہو جائے گی، چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار کہا تھا کہ دکھادیں، انٹراپارٹی انتخابات کا ہونا دکھا دیں، آپ کو فیصلہ پسند نہیں تو کچھ نہیں کر سکتے، لیول پلیئنگ فیلڈ پر ہم نے حکم جاری کیا تھا، عدالت حکم دے سکتی ہے حکومت نہیں بن سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یرسٹر گوہر کے معاملے پر پولیس اہلکار معطل ہوگئے، ہمارا کام انتخابات قانون کے مطابق کروانا ہے، الیکشن کا معاملہ ہم نے اٹھایا، پی ٹی آئی کی درخواست پر بارہ دن میں تاریخ مقرر کی، الیکشن کمیشن کہتا رہا پارٹی انتخابات کرائیں لیکن نہیں کرائے گئے، کسی اور سیاسی جماعت پر اعتراض ہے تو درخواست لے آئیں۔

باقی جماعتیں کیوں نظر نہیں آ رہیں؟ جسٹس مسرت ہلالی کا الیکشن کمیشن حکام سے مکالمہ

دوران سماعت ‏جسٹس مسرت ہلالی نے الیکشن کمیشن حکام سے مکالمہ کیا کہ الیکشن کمیشن فئیر نہیں ہے؟ ایک سیاسی جماعت کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں؟ آپ کو باقی سیاسی جماعتیں کیوں نظر نہیں آ رہیں؟

جسٹس مسرت ہلالی نے لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ آپ بتا رہے تھے کہ آپ نے کسی جماعت سے اتحاد کیا ہے، لطف کھوسہ نے جواب دیا کہ میں وہی تو بتا رہا ہوں کہ ہمیں اتحاد بھی نہیں کرنے دیا گیا، ہم نے جس جماعت سے اتحاد کیا اس کے سربراہ کو اٹھا لیا گیا اور پریس کانفرنس کروائی گئی، اتحاد کرنے پر بھی اب ہم پر مقدمات بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، آپ کے فیصلے سے ہمیں پارلیمانی سیاست سے نکال دیا گیا، آپ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے لوگ آزاد انتخابات کریں گے۔

آپ کے فیصلے کے بعد عدالت کے بجائے عوام کے پاس جانے کا فیصلہ کیا، لطیف کھوسہ کا چیف جسٹس سے مکالمہ

سماعت کے دوران‏ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سردار لطیف کھوسہ سے مکالمہ کیا کہ اس دن ہمارے سامنے بیرسٹر گوہر صاحب کا کیس آیا، ہم نے ریاست کو احکامات دیے، یہ بھی کہا کہ اگر بیرسٹر گوہر مطمئن نہیں ہوتے تو ہمیں تحریری طور پر آگاہ کریں، جہاں تک مجھے معلوم ہوا ہے کچھ پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے، ابھی تک بیرسٹر گوہر صاحب کی طرف سے کچھ بھی تحریری طور پر نہیں آیا، اس حوالے سے اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو ہم وہ بھی کریں گے۔

‏سردار لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مکالمہ کیا کہ ہم نے آپ کی خاطر تحریک چلائی، اپنا خون دیا، اگر آج بھی آپ پر مشکل وقت آتا ہے تو ہم جان دینے کو تیار ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کے بلے کے نشان سے متعلق فیصلے کے بعد ہم اب آپ کی عدالت کے بجائے 25 کروڑ عوام کے پاس جائیں گے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں 3 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات یقینی بنائے۔

7 جنوری کو الیکشن کمیشن نے اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا تھا جس میں تحریک انصاف کے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ فراہم کرنے کے الزامات مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ تحریک انصاف کی درخواست کو جرمانے کے ساتھ مسترد کیا جائے۔

8 جنوری کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ سے استفسار کیا تھا کہ کیا آپ چاہتے ہیں آپ کے 100 فیصد کاغذات نامزدگی منظور ہوں؟

لطیف کھوسہ نے کہا تھا کہ مجھے 3 دن کا وقت دے دیں الیکشن کمیشن کی رپورٹ پر جواب جمع کرا دوں گا، بعدازاں عدالت نے پی ٹی آئی کی لیول پلینگ فیلڈ عدم فراہمی پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت 15 جنوری (آج) تک ملتوی کردی تھی۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ 26 دسمبر کو آئندہ انتخابات کے حوالے سے لیول پلیئنگ فیلڈ کے احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے پر پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی تھی۔

پی ٹی آئی کی درخواست میں الزام لگایا گیا کہ عدالتی احکامات کے باوجود پی ٹی آئی امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے روکا گیا، صوبائی الیکشن کمشنر کے متعدد خطوط لکھے لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

درخواست میں پی ٹی آئی نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ 22 دسمبر کے احکامات پر عملدرآمد یقینی بنائے، پی ٹی آئی امیدواروں اور رہنماؤں کو گرفتاریوں اور حراساں کرنے سے روکا جائے۔

اس میں استدعا کی گئی کہ عدالتی حکم عدولی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، پی ٹی آئی امیدواروں کو ریلیوں اور جلسوں کی اجازت دی جائے۔

پی ٹی آئی نے توہین عدالت کی درخواست پر فوری سماعت کرنے کی بھی استدعا کی، درخواست میں چاروں چیف سیکریٹریز، آئی جیز کے علاوہ سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری الیکشن کمیشن کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔

یاد رہے کہ 22 دسمبر کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق درخواست کو نمٹاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تمام شکایات پر فوری ایکشن لے کر انہیں حل کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

مقدمے کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے کی تھی۔

ان عدالتی احکامات کے بعد تحریک انصاف کا وفد الیکشن کمیشن پہنچا تھا جہاں ای سی پی نے اسے لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابی عمل میں رکاوٹ بننے والے ڈی آر اوز، آر اوز اور پولیس افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں