سپریم کورٹ: عمران خان کیخلاف جیل میں سائفر ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ چیلنج

اپ ڈیٹ 19 جنوری 2024
حکومت نے مؤقف اپنایا کہ  ہائی کورٹ کے پاس خصوصی عدالت کی حیثیت ختم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔— فائل فوٹو: سپریم کورٹ  ویب سائٹ
حکومت نے مؤقف اپنایا کہ ہائی کورٹ کے پاس خصوصی عدالت کی حیثیت ختم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔— فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

نگران وفاقی حکومت نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف جیل میں سائفر ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، نگران حکومت کی جانب سے درخواست وکیل راجہ رضوان عباسی نے دائر کی، درخواست میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور جج ابو الحسنات کو فریق بنایا گیا ہے۔

ان کے علاوہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ، انسپکٹر جنرل (آئی جی)، ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) سمیت چیف کمشنر اسلام آباد کو بھی فریق نامزد کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ہائی کورٹ نے سائفر ٹرائل کے لیے قائم خصوصی عدالت کو کالعدم قرار دیا تھا کیونکہ اس معاملے میں عدالت نے حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا ہے۔

وزارت قانون اور داخلہ کی طرف سے دائر درخواست میں استدلال کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم قانون کے مطابق نہیں اور دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

درخواست کے مطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 14 پر اسلام آباد بینچ نے مناسب طریقے سے بحث نہیں کی، پیٹیشن میں کہا گیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے معاملات میں کھلے ٹرائل کے اصول کا صحیح طور پر اطلاق نہیں کیا گیا ہے اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعہ 14 کو متعارف کرانے میں مقننہ کا مقصد ریاستی سطح کے رازوں کی حفاظت کرنا تھا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ سائفر جیسے معاملے میں کھلے ٹرائل کا نظریہ قانون کی پوری اسکیم کے لیے نقصان دہ ہے۔

وفاقی حکومت نے استدعا کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا 21 نومبر 2023 کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

واضح رہے کہ 29 اگست کو اسلام ٓباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں بانی پی ٹی آئی کی سزا معطل کر دی تھی تاہم آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے جیل حکام کو ہدایت کی تھی کہ عمران کو سائفر کیس میں جوڈیشل لاک اپ میں رکھا جائے۔

اسی دن وزارت قانون کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ قانون ڈویژن کو اٹک جیل میں زیر سماعت سائفر کیس میں عمران خان کے ٹرائل پر کوئی اعتراض نہیں ہے، بعد ازاں ستمبر میں عمران کو اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

اس مقدمے میں سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد کی گئی تھی، دونوں نے ہی صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

تاہم، 21 نومبر کو جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس سمن رفعت امتیاز پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کے جیل ٹرائل کو منظور کرنے والے ایک رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف عمران خان کی انٹرا کورٹ اپیل کو قابل سماعت قرار دے دیا تھا۔

بینچ نے جیل ٹرائل کے لیے حکومت کے نوٹیفکیشن کو غلط قرار دیا اور پوری کارروائی کو ختم کر دیا تھا۔

نتیجتا کیس میں عمران خان اور شام محمود قریشی پر عائد فرد جرم بھی کالعدم ہوگئی تھی اور مقدمہ دوبارہ کھلی عدالت میں چلایا گیا تھا، اس کے بعد 14 دسمبر کو ان پر دوبارہ فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

سائفر کیس

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں سابق وزیر اعظم اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں تھے۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں